پیرس معاہدہ بے اثر؟ دنیا بھر کا ماحول داؤ پر لگ گیا

پیرس معاہدہ بے اثر؟ دنیا بھر کا ماحول داؤ پر لگ گیا

پیرس معاہدہ بے اثر؟ دنیا بھر کا ماحول داؤ پر لگ گیا

اسلام آباد(ویب ڈیسک)پیرس ماحولیاتی معاہدے سے امریکہ کے انخلا کی وجہ سے سالانہ 100 ارب ڈالر کے عالمی وعدوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، جس سے ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ترقی پذیر ممالک کو ایسی حکمتِ عملی اپنانی ہوگی جو مالیاتی طور پر متنوع ہو، خطے میں باہمی تعاون کو فروغ دے، اور اداروں کو مضبوط کرے تاکہ ان کے ماحولیاتی وعدے محض علامتی نہ رہیں۔

یہ باتیں ممتاز ماحولیاتی ماہرین نے پالیسی ادارہ برائے پائدار ترقی کے زیر اہتمام پیرس ماحولیاتی معاہدے سے امریکہ کے انخلا اور دنیا بھر میں ماحولیاتی مالی معاونت کے بڑھتے ہوئے بحران کے تناظر میں ایک آن لائن پالیسی مذاکرے میں کہیں۔شرکاءمیں ایس ڈی پی آئی کے نائب سربراہ ڈاکٹر شفقت منیر، وزارتِ توانائی کے تحت پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی) کے ماحول اور ماحولیاتی تبدیلی کے ڈائریکٹر محمد فیصل شریف، کلائمیٹ ایکشن سینٹر آف ایکسی لینس کی ڈائریکٹر ڈاکٹر الیگزینڈرا سورزر، چین کے انسٹیٹیوٹ آف گرین ڈیویلپمنٹ پروگرام (آئی جی ڈی پی) کی تجزیہ کار ما یوئے، ایشیائی سرمایہ کاروں کے گروپ اے آئی جی سی سی کی پالیسی ڈائریکٹر انجلی وسوامو ہنن، ایس ڈی پی آئی کی شعبہ ماحول کی سربراہ زینب نعیم اور ادارے کے انرجی یونٹ کے سربراہ انجینئر عبیدالرحمٰن ضیا شامل تھے۔ابتدائی کلمات میں ڈاکٹر شفقٹ منیر نے ماحولیاتی مالیاتی خلا کی سنگینی بیان کرتے ہوئے کہا کہ جہاں ترقی پذیر ملکوں کو 2035 تک کم از کم 1.3 کھرب ڈالر کی ضرورت ہے،

وہاں ابھی تک صرف 300 ارب ڈالر کی مالی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ امریکہ جیسے بڑے ملک کے پیچھے ہٹنے سے سالانہ 100 ارب ڈالر کے عالمی وعدے کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے جس سے ترقی پذیر ممالک تنہا رہ جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں محض بلند دعووں سے نکل کر ٹھوس، شفاف اور سب کو شامل کرنے والے اقدامات کی طرف آنا ہوگا۔ ایس ڈی پی آئی کے انجینئر عبیدالرحمٰن ضیا نے کہا کہ ماحولیاتی وعدے جنوبی ایشیا کے ماحولیاتی نظم و نسق میں اہم حیثیت رکھتے ہیں لیکن امریکہ کی علیحدگی سے بین الاقوامی صورتحال متاثر ہوئی ہے اور ترقی پذیر ممالک کی مالی ضروریات پر اثر پڑا ہے۔

انہوں نے ماحولیاتی اقدامات کےلئے نئی منڈیوں پر مبنی مالیاتی طریقے اپنانے کی تجویز دی۔پی پی آئی بی فیصل شریف نے کہا کہ این ڈی سیز کا تیسرا مرحلہ ہمیں یہ موقع دے رہا ہے کہ ہم اپنی ترقی کی سمت کو دنیا کے کم کاربن والے اصولوں کے مطابق ڈھالیں جس میں سرحد پار کاربن پر ٹیکس جیسے نئے ضوابط (CBAM) اور انصاف پر مبنی توانائی منتقلی کی منصوبہ بندی شامل ہے۔چین کے آئی جی ڈی پی کی ما یوئے نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو آپس میں تعاون بڑھانا ہوگا اور شفافیت کے اصول اپنانے ہوں گے تاکہ ماحولیاتی وعدے موثر ہو سکیں۔انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل کی حکمتِ عملیوں میں گرین ہاوس گیسوں کے مکمل اثرات کا جائزہ، اور ہر شعبے میں عام لوگوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے۔

اے آئی جی سی سی کی انجلی وسوامو ہنن نے کہا کہ اب بڑی سرمایہ کاری کمپنیاں ماحولیاتی خطرات کو سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ نجی سرمایہ موجود ہے، لیکن حکومتوں کو واضح پالیسیاں، خطرات کا تجزیہ، اور ایسی حکمتِ عملی وضع کرنا ہوگی جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے۔انہوں نے حکومتوں پر زور دیا کہ وہ قدرتی نظاموں پر مبنی حل (NBS) اور توانائی منتقلی میں سرمایہ کاری کے لئے مراعات اور تحفظات فراہم کریں ۔ڈاکٹر زینب نعیم نے زور دیا کہ ماحولیاتی تبدیلی سے مطابقت کے لئے ہمیں نچلی سطح پر، یعنی کمیونٹی کی سطح پر اقدامات کرنے ہوں گے۔

ڈاکٹر الیگزینڈرا سورزر نے پیرس معاہدے کے آرٹیکل 6 کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اس شق کے تحت ممالک آپس میں کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لئے تجارتی طریقے اپنا سکتے ہیں۔آخر میں ایس ڈی پی آئی کے سینئر مشیرنے مذاکرے کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ پالیسیوں کا مضبوط ڈھانچہ، ادارہ جاتی ہم آہنگی اور علاقائی تعاون ہی ایسے وعدوں کو حقیقت بنانے کے لئے ضروری ہیں۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں