پاکستان کو ایک اور آپریشن”عزمِ استحکام” کی ضرورت کیوں ہے؟

ایسے لگتا ہے پاکستان آرمی کی جانب سے “اسلام پسند انتہا پسندوں” اور “دہشت گردوں” کے خلاف” فوجی آپریشن” پاکستان کے “سالانہ بجٹ” کی طرح ہیں- دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ اہم مسائل کے حل کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہمیشہ ناکام رہنے کاگمان ہوتا ہے- کیونکہ یہ کبھی بھی ان بنیادی وجوہات کو حل نہیں کرتے جو مسئلے کے آغاز کا سبب بنی تھیں۔ اور، بجٹ کی طرح، فوجی آپریشن اکثر بنیادی مسئلے کو حل کرنے کے بجائے عالمی برادری کو مطمئن اور خوش کرنے کے لیے تیار کیے جاتے ہیں- بجٹ کے معاملے میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) اور انسداد دہشت گردی کے آپریشنز کے معاملے میں چین ہمارا درینہ دوست ہے-

ایک اور آپریشن

ایک بار پھر، پاکستان کی حکومت نے ایک اور فوجی آپریشن جس کو عزمِ استحکام (پائیدار استحکام کا عزم) ک اعلان کر دیا ہے – اس آپریشن کا مقصد “انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مسائل کا جامع اور فیصلہ کن انداز میں مقابلہ کرنا ہے-”
سال 2007 سے، یہ بارہواں بڑا “انسداد اسلام پسند دہشت گرد” فوجی آپریشن ہے، جبکہ چھوٹے اور آپریشن بھی کیے گئے ہیں۔

زیادہ تر پچھلے آپریشن ایک خاص علاقے پر مرکوز تھے جو خاص طور پر مشکل بن گئے تھے۔ مثلاً، آپریشن” راہِ راست” اور” راہِ حق ” سوات کے علاقے میں تھے، ” شیر دل “باجوڑ میں اور” راہِ نجات” جنوبی وزیرستان ایجنسی میں۔ دو بڑے آپریشن، جنہیں وسیع محاذ پر کیا گیا تھا، “ضربِ عضب” ، جو شمالی وزیرستان سے شروع ہو کر دیگر علاقوں تک پھیلا- اس کے بعد” رد الفساد” ، جو زیادہ تر “انٹیلیجنس” پر مبنی آپریشن تھا تاکہ پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے “دہشت گرد” نیٹ ورکس کو نشانہ بنایا جا سکے۔

تاہم، جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ یہ تیسرا فوجی آپریشن ہے جو چینیوں کو مطمئن کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ 2007 میں، لال مسجد آپریشن، جس نے تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) کی تشکیل کے لیے ایک محرک کا کردار ادا کیا اور پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں زبردست اضافہ ہوا- یہ آپریشن اس وقت لانچ کیا گیا جب مسجد میں موجود “اسلام پسند انتہا پسندوں” نے ایک چینی مساج پارلر پر حملہ کیا اور چینی کارکنوں کو اغوا کیا۔

چینی حکومت نے مبینہ طور پر اس وقت کے فوجی آمر پرویز مشرف پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا کہ وہ فوج کو لال مسجد صاف کرنے کے لیے بھیجیں۔

اسی طرح ضربِ عضب آپریشن بھی جزوی طور پر اس لیے شروع کیا گیا تھا کہ پاکستان چینیوں کو یقین دلانا چاہتا تھا کہ یہ آپریشن ایغور عسکریت پسندوں کے خلاف ہے۔ تازہ ترین آپریشن ایک بار پھر چین کی جانب سے پاکستان پر مسلط کیا گیا ہے۔

29 مئی کو بزنس ریکارڈر اخبار نے رپورٹ کیا کہ چینی نائب وزیر خارجہ سن ویدونگ نے ایک دورہ کرنے والے پاکستانی وفد کو جو بیجنگ میں وزیر اعظم شہباز شریف کے دورے کی تیاری کے لیے موجود تھا، “TTP، مجید بریگیڈ، BLA اور دیگر دہشت گرد قوتوں کے خلاف ایک اور ضربِ عضب کی ضرورت کے بارے میں بتایا تاکہ ان کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے”۔ حالیہ چینیوں پر حملوں نے، جس میں تازہ ترین مارچ میں چینی انجینئروں کو لے جانے والی بس پر خودکش حملہ تھا، چینیوں کو ناراض کر دیا تھا جنہیں پاکستانیوں کی جانب سے محفوظ سکیورٹی کی یقین دہانی بار بار دی گئی تھی۔

نہ صرف CPEC میں چینی سرمایہ کاری پاکستان میں نقصان دہ ثابت ہو رہی تھی، بلکہ پاکستان میں چینی کارکنوں کی حفاظت بھی خطرے میں تھی۔ پاکستانیوں کو واضح کر دیا گیا تھا کہ مستقبل کی چینی سرمایہ کاری، پاکستان میں سکیورٹی فراہم کرنے کے معاملے پر منحصر ہوگی۔

مشکلات کے درمیان

پہلا، اس طرح کے آپریشن کے پیچھے کوئی سیاسی اتفاق رائے نہیں ہے۔ تقسیم شدہ سیاسی ماحول میں، اپوزیشن کی جانب سے پہلے ہی اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔
دوسرا، فوجی آپریشن ایک مہنگا عمل ہے۔
اگر فوجی آپریشن زیادہ تشدد کی طرف لے جاتے ہیں، تو یہ ممکنہ سرمایہ کاروں کو بھی خوفزدہ کر دے گا۔
چوتھا، پاکستان ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں الجھتا جا رہا ہے، خاص طور پر افغان طالبان پاکستانی طالبان کو چھوڑنے کا امکان نہیں رکھتے۔
پانچواں، پاکستان میں ریاست اور معاشرے دونوں میں ایک بنیادی نظریاتی الجھن موجود ہے جو کامیابی سے دہشت گردی کے خلاف لڑنے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

شاید پاکستان آرمی کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی بنیاد انتہا پسندنا سوچ ہے نا کہ دہشت گردی۔ آخر میں، کیا پاکستان تین سرگرم میدانوں، یعنی انڈیا، افغانستان اور اندرونی کے مخالفت ایک ساتھ برداشت کر سکتا ہے؟

Author

اپنا تبصرہ لکھیں