میں 5سال ایک ماہ بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا، مجھے معلوم ہے کہ کتنی مداخلت ہوتی ہے،چیف جسٹس
اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بیان دیا کہ وہ 5 سال ایک ماہ تک بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے تصدیق کی کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہیں اور ان کے یا کسی دوسرے جج کے کام میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی تصدیق کی کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے ان کے دور میں کبھی کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔ جسٹس مسرت ہلالی کا پختہ خیال ہے کہ جو مداخلت کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا اسے جج کی کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔
اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مبینہ مداخلت کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہم کسی سیاسی طاقت، حکومت یا حساس ادارے کو استعمال نہیں کریں گے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ… جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر پر مشتمل 6 رکنی بینچ افغان بینچ کا حصہ ہے جب کہ حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیے۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی سفارشات پڑھ کر سنائیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ وہ کون سی چیزیں ہیں جو ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتیں، تمام ہائیکورٹس سے سفارشات طلب کر لی ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ کمیٹی نے آرٹیکل 184/3 کے تحت سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اسلام آباد میں موجود تمام ججز کو بلایا گیا ہے۔ اس معاملے کی سماعت کے لیے ججز کا انتخاب نہیں کیا گیا اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا۔ سماعت سے یحییٰ آفریدی کے عذر کو ہلکا نہ لیا جائے۔ چیف جسٹس نے نشاندہی کی کہ آئندہ سماعت پر فل کورٹ ہو سکتی ہے لیکن دو ججز دستیاب نہیں اس لیے فل کورٹ نہیں بلائی جا سکتی۔ دیگر دستیاب ججوں نے پایا کہ سماعت ملتوی کر دی گئی۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ملک میں پہلے ہی تقسیم ہے، لوگ عدلیہ کی آزادی سے زیادہ اپنے نقطہ نظر کو آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ مداخلت کسی بھی طرف سے ہوسکتی ہے، خواہ وہ انٹیلی جنس ایجنسیاں، ساتھی، خاندان، سوشل میڈیا، یا کوئی اور ذریعہ ہو۔ چیف جسٹس نے زور دے کر کہا کہ مداخلت کی حد اور کتنی آزادی ہے اس کا تعین عدالت کرے گی۔ مداخلت کے معاملے کو ہلکے سے نہیں لیا گیا، اور جج اس پر سنجیدہ تھے۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جو کہا لاہور ہائی کورٹ نے اس کی تصدیق کر دی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے پاس یہ معاملہ حل کرنے کا موقع ہے چاہے اندرونی دباؤ ہو یا بیرونی دباؤ۔ ہم نے اسے دور کرنا ہے، ہمیں ہائی کورٹس اور عدلیہ کو بااختیار بنانا ہے، ہمارے پاس اس حوالے سے سنہری موقع ہے اور ہمیں ایک مخصوص انداز اپنانا ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یہ صرف مداخلت نہیں بلکہ ہمارے دو ججز کو نشانہ بنایا گیا۔ اگر کوئی مثبت تجاویز دینا چاہتا ہے، خواہ وہ فریق ہو یا نہ ہو، وہ کرسکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا نوٹس لے لیا ہے جب کہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مداخلت کے آگے رکاوٹ ڈالنا ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر میرے کام میں مداخلت ہو اور میں اسے روک نہیں سکتا۔ تو مجھے گھر جانا چاہیے۔ جسٹس اطہر نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کا تحفظ ریاست کو کرنا ہے۔ نعیم اختر افغان نے کہا کہ ملک میں تین ایجنسیاں ہیں، کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں۔ آئی بی، آئی ایس آئی اور ایم آئی کس قانون کے تحت بنی، تینوں ایجنسیوں کے قوانین آئندہ سماعت پر بتائے جائیں۔