پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے بڑا شکار کیوں؟

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، حالانکہ عالمی کاربن اخراج میں اس کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ قصوروار نہ ہوتے ہوئے بھی پاکستان سب سے زیادہ کیوں بھگت رہا ہے؟ اس کا جواب ہمارے زمینی حالات، کمزور پالیسیوں اور ماحولیاتی بدانتظامی میں پوشیدہ ہے۔

جنگلات کی کمی: قدرتی ڈھال کا خاتمہ

ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کے کل رقبے کا کم از کم 25 فیصد جنگلات پر مشتمل ہونا ضروری ہے تاکہ ماحولیاتی توازن برقرار رہے۔ لیکن پاکستان میں یہ شرح 5 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔ اس کے برعکس چین میں 23 فیصد، بھارت میں 24 فیصد، بنگلہ دیش میں 18 فیصد اور یورپی یونین میں 42 فیصد رقبہ جنگلات پر محیط ہے، جبکہ جاپان کا تقریباً 68 فیصد حصہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔

پاکستان میں بے دریغ کٹائی نے ماحولیاتی نظام کو کمزور کر دیا ہے۔ خیبر پختونخوا اور شمالی علاقوں میں درختوں کی کٹائی نے دریاؤں کے کیچمنٹ ایریاز تباہ کر دیے ہیں۔ نتیجتاً بارش کا پانی زمین میں جذب ہونے کے بجائے تیزی سے بہہ کر تباہ کن سیلاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

پانی کا بحران اور ناقص ذخیرہ

پاکستان کی سب سے بڑی کمزوری پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ ہمارے پاس صرف 30 دن کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے، جبکہ بھارت 170 دن اور امریکہ 900 دن کے لیے پانی محفوظ کر سکتا ہے۔ کالا باغ ڈیم جیسے بڑے منصوبے سیاسی تنازعات کا شکار ہو گئے اور چھوٹے ڈیمز کی تعمیر پر بھی توجہ نہ دی گئی۔ یوں ہر سال اربوں مکعب میٹر پانی ضائع ہو کر سمندر میں جا گرتا ہے، جو اگر محفوظ کیا جائے تو بجلی، زراعت اور پینے کے پانی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

اسی طرح بارش کے پانی کو زیرِ زمین ذخائر میں جذب کرنے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ نتیجتاً زیر زمین پانی تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ اگر وفاقی و صوبائی سطح سے لے کر ہاؤسنگ سوسائٹیز تک چھوٹے ڈیمز اور واٹر ری چارج سسٹم بنایا جائے تو قحط اور سیلاب دونوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

امریکہ، یورپ، جاپان اور چین کاربن کے بڑے اخراج کنندہ ہیں لیکن وہ پاکستان جتنے متاثر نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک نے شجرکاری کو فروغ دیا، ڈیمز اور نکاسی آب کا مضبوط نظام بنایا، اور آفات سے نمٹنے کے لیے ادارے قائم کیے۔ ان کی پالیسیوں میں موسمیاتی تبدیلی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

پاکستان کے برعکس، یہاں یہ معاملہ ابھی تک حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں ہو سکا، جس کا خمیازہ بار بار آنے والے سیلاب، خشک سالی اور زرعی پیداوار میں کمی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔

اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں پاکستان کی زرعی معیشت، شہری و دیہی آبادیاں اور قومی سلامتی سب خطرے میں ہوں گی۔ ہمیں جنگلات کے رقبے میں اضافہ، چھوٹے ڈیموں کی تعمیر، اور بارش کے پانی کو زمین میں جذب کرنے کے منصوبوں پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔

پاکستان دنیا کو کاربن آلودگی دینے والوں میں شامل نہیں، لیکن بدقسمتی سے موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے بڑا شکار بن چکا ہے۔ اب یہ مسئلہ صرف ماحولیات کا نہیں بلکہ قومی بقا کا ہے۔

Author

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.