پاکستان میں سست انٹرنیٹ کی وجہ واقعی وی پی این کا زیادہ استعمال ہے؟
پاکستان میں گذشتہ چند ہفتوں سے صارفین سست انٹرنیٹ اور واٹس ایپ استعمال کرنے میں مسائل کے حوالے سے شکایت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ملک میں اگر آپ اپنے فون سے کسی کو خصوصاً موبائل ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے واٹس ایپ کے ذریعے وائس نوٹ یا کوئی تصویر بھیجنے کی کوشش کریں، تو عین ممکن ہے کہ یہ اگلے صارف تک پہنچے ہی نہ یا اگر آپ وصول کرنے والے ہوں تو یہ ڈاؤن لوڈ ہی نہ ہو۔انٹرنیٹ کے مبینہ غیر اعلانیہ خلل اور اس سے جڑے اِن مسائل پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافی حامد میر کی جانب سے دائر درخواست پر آج سماعت ہو گی۔اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ ذریعۂ معاش کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی کو آئین کے تحت بنیادی انسانی حقوق قرار دیا جائے اور ’شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر کرنے والی فائر وال کی تنصیب کو روکا جائے۔
خیال رہے کہ ملک میں انٹرنیٹ کی سست روی کے حوالے سے متعلقہ حکام کی جانب سے کوئی واضح جواب نہیں دیا جا رہا تھا تاہم وزیرِ مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن شزہ فاطمہ نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ پاکستان میں وی پی این کا بہت زیادہ استعمال ہے۔اس سے قبل شزہ فاطمہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پوری دنیا میں حکومتیں سائبر سکیورٹی کے لیے فائر وال انسٹال کرتی ہیں۔ فائر وال سے پہلے ویب منیجمنٹ سسٹم تھا جسے حکومت اب اپڈیٹ کر رہی ہے۔‘لاکھوں صارفین موبائل ڈیٹا پر واٹس ایپ، فیس بک اور انسٹاگرام جیسی ایپس تک رسائی یا ان کے استعمال میں دشواری کی شکایت کر رہے ہیں۔ اس دشواری کا آغاز محرم کی تعطیلات کے دوران ہوا تھا۔پاکستان میں عموماً سکیورٹی کی صورتحال کے پیشِ نظر اس دوران موبائل سروس کو معطل کیا جانا ایک روایت رہی ہے تاہم اس مرتبہ ایسی کسی بندش کے بارے میں کوئی اعلان سامنے نہیں آیا تھا۔ مختلف ٹیلی کام کمپنیوں سے اس مسئلے کے وجہ جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تھا جس پر بیشتر نے یہی جواب دیا کہ ’ہمارے نیٹ ورک میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ مسئلہ حکومت کی جانب سے آ رہا ہے۔‘