وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے ایک اہم اجلاس کی صدارت کی، جس میں انہوں نے واضح کیا کہ اسمگلنگ میں ملوث افراد کو پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی قطعی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وزیرِ اعظم نے زور دیا کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال یقینی بنایا جائے اور اسمگلنگ میں ملوث عناصر، ان کے سہولت کاروں، اور ٹرانسپورٹرز کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے، بشمول ان کی گاڑیوں کو ضبط کرنے کے۔ وزیرِ اعظم نے اس بات کو سراہا کہ متعلقہ اداروں کی کارروائیوں کی بدولت اسمگلنگ میں کمی آئی ہے، تاہم انہوں نے ایف بی آر، وزارت داخلہ، اور دیگر اداروں کے درمیان تعاون کو مزید بہتر بنانے کی ہدایت دی۔ اجلاس کے دوران سرحدی علاقوں میں لوگوں کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنے کے لیے جامع حکمت عملی پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔ اجلاس کو اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے جاری مہم اور اس کے نتائج پر تفصیلی بریفنگ دی گئی، جس میں بتایا گیا کہ پیٹرولیم مصنوعات، سگریٹ، موبائل فون، سونا، چائے، کپڑے، اشیائے ضروریہ، ٹائرز، اور گاڑیوں کے پرزوں کی اسمگلنگ کے خلاف مؤثر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم کو آگاہ کیا گیا کہ 54 مشترکہ چیک پوسٹوں کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے، اور نان کسٹم گاڑیوں کی نشاندہی اور میپنگ کے لیے نظام کا اجراء بھی حتمی مراحل میں ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت 212 اشیاء پر پابندی عائد کی جا چکی ہے جن کی اسمگلنگ کا خطرہ تھا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ مالی سال 2023-24 کے دوران اسمگلنگ کی کوششیں ناکام بنا کر 106 ارب روپے مالیت کی اشیاء ضبط کی گئیں، اور اسمگلنگ میں ملی بھگت کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ وزیرِ اعظم نے اسمگلنگ کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر اور تیز کرنے کی ہدایت دی۔ اس اجلاس میں وفاقی وزراء، چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز، اور متعلقہ اعلی حکام نے شرکت کی۔