بنگلہ دیش میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کیخلاف شروع ہونے والی طلبہ تحریک شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف تحریک میں بدل چکی ہے اور پرتشدد مظاہروں میں اتوار کے دن 83 افراد کی ہلاکت کے بعد وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ زور پکڑ چکا ہے۔جولائی میں شروع ہونے والی اس تحریک میں اب تک مجموعی طور پر 2 سو 80 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ملک میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ایسے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ ولکر ترک نے بنگلہ دیش کی حکومت اور سکیورٹی فورسز پر زور دیا ہے کہ وہ ’تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حیران کن تشدد کا خاتمہ کریں۔یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سوموار کے دن بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں بڑے مظاہرے متوقع ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے ’مزید تباہی اور جانی نقصان‘ کے اندیشے کا اظہار کیا گیا ہے۔ولکر ترک نے کہا ہے کہ ’حکومت احتجاج میں پرامن شرکا کو نشانہ بنانا چھوڑ دے اور مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے۔تاہم وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کیساتھ اجلاس کے بعد بیان دیا کہ ’مظاہرین طلبہ نہیں، بلکہ دہشتگرد ہیں جو ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اتوار کے دن ملک کے وزیر قانون انیس الحق نے نجی نیوز کے ایک پروگرام میں کہا کہ حکام تحمل سے کام لے رہے ہیں۔ ’اگر ہم تحمل نہ دکھا رہے ہوتے تو خون ریزی ہوتی۔ ہماری برداشت کی بھی حد ہے۔‘اتوار کی صورت حال پر ایک پولیس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ پورا شہر ’میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ وہ دارلحکومت ڈھاکہ کی بات کر رہے تھے جہاں ان کے مطابق کئی ہزار مظاہرین کے ہجوم نے ایک ہسپتال کے باہر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی آگ لگا دی۔اتوار کو مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے سے کرفیو کا اعلان کیا گیا ہے۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق کرفیو غیر معینہ مدت تک نافذ رہیگا.اس سے قبل سنیچر کے روز طلبہ تحریک کے رہنماؤں میں شامل ناہید اسلام نے ڈھاکہ میں ہزاروں کے اجتماع میں خطاب کے دوران کہا کہ ’شیخ حسینہ کو صرف استعفیٰ ہی نہیں دینا چاہیے بلکہ ان پر قتل و غارت، لوٹ مار اور بدعنوانی کا مقدمہ ہونا چاہیے۔ ڈھاکہ میں اس وقت موبائل فونز پر انٹرنیٹ کی سہولت معطل کر دی گئی ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے والی بعض کمپنیوں نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے احکامات موصول ہونے پر انھوں نے سروسز معطل کی ہیں۔یاد رہے کہ انٹرنیٹ کی فور جی اور تھری جی سروسز کے بغیر لوگ اپنے موبائل پر انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے رابطہ نہیں کر سکتے۔
طلبہ کا احتجاج، نو نکاتی مطالبات کیا تھے؟
بنگلہ دیش میں سرکاری نوکری کو اچھی تنخواہ کی وجہ سے کافی اہمیت دی جاتی ہے تاہم تقریبا نصف نوکریاں، جن کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے، مخصوص گروہوں کیلئے مختص ہیں۔سرکاری نوکریوں کا ایک تہائی حصہ ان افراد کے اہلخانہ کیلئے مخصوص ہے جنہیں بنگلہ دیش میں آزادی کی جنگ کا ہیرو مانا جاتا ہے تاہم طلبہ کا کہنا ہے کہ یہ نظام متعصبانہ ہے اور سرکاری نوکری صرف میرٹ کی بنیاد پر ہی ملنی چائیے.احتجاج میں شریک طلبہ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ انہیں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے اس بیان نے طیش دلایا جس میں ان طلبا کے مطابق وزیر اعظم نے کوٹہ نظام کیخلاف احتجاج کرنے والوں کو 1971 کی جنگ میں پاکستان کی مدد کرنے والے رضاکاروں سے تشبیہ دی۔ بنگلہ دیش میں یہ اصطلاح ان لوگوں کیلئے استعمال کی جاتی ہے جنھوں نے مبینہ طور پر 1971 کی جنگ میں پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا تھا۔ایسے میں ڈھاکہ سمیت کئی شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے دوران اس نظام کے مخالفین اور برسراقتدار عوامی لیگ کے طلبہ کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جنکے دوران لاٹھیوں اور اینٹوں کا استعمال ہوا، پولیس کی جانب سے آنسو گیس برسائی گئی اور ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں
جس کی وجہ سے سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔مظاہرین نے حکومت کو نو نکاتی مطالبات کی فہرست دی اور پھر عدلیہ کی مداخلت سے بظاہر انتظامیہ نے یہ مطالبات تسلیم بھی کر لیے مگر پھر بھی احتجاج اور مظاہروں کا یہ سلسلہ رک نہ سکا۔پرتشدد مظاہروں کے بعد سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم میں تبدیلی کا حکم دیا ہے جس کے مطابق ’1971 کی جنگ میں لڑنے والے فوجیوں کے اہلِ خانہ کو ملازمتوں کا اب صرف5 فی صد حصہ ملے گا‘ تاہم مظاہرین نے مارے جانیوالے طلبہ کو انصاف ملنے تک ملک گیر مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کیا۔نجی نیوز چینل کی رپورٹر رضوانہ کے مطابق ’پہلے تو طلبہ کے نو مطالبات تھے مگر اس وقت عوام ایک ہی مطالبے پر باہر نکلے ہیں کہ اب وزیراعظم شیخ حسینہ واجد استعفیٰ دیں۔انکے مطابق اس وقت صرف ایک ہی جماعت ملک میں فعال ہے اور وہ حکومتی جماعت عوامی لیگ ہے۔ ان کے مطابق متعدد سیاسی رہنما پہلے ہی ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے ہیں۔ڈھاکہ میں مقیم صحافی ندیمہ جہان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب سے کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو حکومت نے ان مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کی پالیسی اختیار کی۔انکے مطابق جب بظاہر یہ مطالبات تسلیم کرنے کے بارے میں خبریں سامنے آئیں تو اس کے بعد بھی کوئی ایک دن ایسا نہیں گزرا جب حکومت اور سکیورٹی اہلکاروں نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کی ہو۔ندیمہ کے مطابق ’ہر روز ہلاکتوں کی خبروں اور گرفتاریوں کے سلسلے نے عوام کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا۔
ان کے مطابق اس وقت تک تقریباً دس ہزار لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔رضوانہ کے مطابق جب لوگوں نے دیکھا کہ گولیاں برس رہی ہیں اور وہ مر رہے ہیں تو وہ حکومت کے خلاف ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے یہ سوال کیا کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں ہماری زندگی بھی محفوظ نہیں ہے۔‘ان کے مطابق ’اب لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ مطالبات تسلیم ہوں یا نہ ہوں یہ بعد کی بات ہے مگر پہلے وزیراعظم کو گھر جانا ہوگا۔انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے علاوہ گذشتہ پندرہ سالوں کے دوران ملک میں جمہوری سرگرمیوں کیلئے آزادی بھی کم ہو گئی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گذشتہ پندرہ سالوں میں اسی (80)سے زائد افراد جن میں سے اکثریت حکومتی ناقدین ہیں، لاپتہ ہو چکے ہیں اور انکے اہل خانہ کو ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔رضوانہ کے مطابق حکومت اس سارے معاملے کو سیاسی رنگ دینا چاہتی ہے اور یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ یہ طلبہ کے کوٹہ سسٹم سے زیادہ حکومت کے خلاف ایک سازش تھی۔انکے مطابق اس کے بعد جماعت اسلامی اور اس کے طلبہ ونگ کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ رضوانہ کے مطابق ’حکومت نے اس بات کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا کہ یہ سیاسی نہیں بلکہ طلبہ کے حقیقی مطالبات تھے۔رضوانہ کے مطابق ’اس وقت بنگلہ دیش میں کوئی جماعت بھی اپوزیشن نہیں کر پا رہی ہے اور نہ کوئی سیاسی جماعت حکومت کے آگے کھڑی ہو سکتی ہے۔ رضوانہ کے مطابق اب صورتحال عوام بمقابلہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد ہے۔رضوانہ کے مطابق حالات مزید کشیدگی کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی رائے میں حکومت نے ایک پرامن احتجاج کو پرتشدد کارروائیوں سے ملک کے کونے کونے تک پھیلا دیا۔رضوانہ نےنجی نیوز کو بتایا کہ اس وقت ہنگامے چل رہے ہیں۔ انٹرنیٹ بند اور فون سروس بند ہے۔ ایئرپورٹ بند کر دیے گئے ہیں۔ میڈیا پر پابندیاں ہیں۔رضوانہ کے مطابق ایک ٹی وی چینل جو مظاہرین اور طلبہ کی کوریج کر رہا تھا، اب اس کی نشریات بھی بند کر دی گئیں ہیں اور اب وہ ٹی وی چینل صرف پرانی نشریات ہی بار بار چلا رہا ہے۔