اسماعیل ہانیہ کون تھے اور اسرائیل حماس کے رہنما سے کیوں خوفزدہ رہتا تھا؟

اسماعیل ہانیہ کون تھے؟

اسماعیل ہانیہ کون تھے؟

ایران(ویب ڈیسک) تہران میں حملے میں شھید ہونے والے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس سربراہ اسماعیل ہانیہ کے پورے خاندان نے فلسطین کاز کیلئے قربانی دی ہے۔ عیدالفطر کے موقع پر 1 حملے میں اسماعیل ہانیہ کے3 بیٹوں اور پوتے سمیت انکے خاندان کے دس افراد شہید ہوگئے تھے۔ غزہ میں اسماعیل ہانیہ کے گھر پر کئے جانیوالے حملے میں انکی 1 بہن بھی شھید ہوئی تھی۔
الجزیرہ کو انٹرویو میں اسماعیل ہانیہ نے بتایا تھا کہ اسرائیلی فوج کے حملے میں انکے بیٹے عامر ،ہازم، اور محمد اور انکے پوتے شھید ہوئے۔1اسرائیلی اخبار نے اسماعیل ہانیہ کے خاندان کے چودہ افراد کی شھادت کا دعوٰی کیا تھا۔
سربراہ حماس اسماعیل ہانیہ کا شمار حماس کے انتہائی اولوالعزم رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ انھوں نے زندگی بھر فلسطین پر اسرائیلی قبضے کیخلاف جدوجہد کی اور کسی بھی مرحلے پر انکے قدم نہیں ڈگمگائے۔ اسرائیل کی قیادت اور فوج دونوں ہی اسماعیل ہنیہ کی سرگرمیوں کی خبر رکھتی تھیں اور انکی نقل و حرکت کو باقاعدگی سے مانیٹر کیا جاتا تھا۔
کچھ ہفتوں کے دوران غزہ میں اسرائیل کی جارحیت بھی بڑھ گئی تھی اور اسرائیلی فوج پر حملوں میں بھی شدت آگئی تھی۔ حماس کے علاوہ اب یمن کی حوثی ملیشیا اور لبنان کی حزب اللہ ملیشیا بھی میدان میں ہیں۔ ان سب نے باری باری اسرائیل کی حدود میں متعدد مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔ اسکے نتیجے میں اسرائیل میں خوف بڑھا ہے اور اسرائیلی قیادت کی بدحواسی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔سربراہ حماس اسماعیل ہانیہ نے کسی بھی اپنی جدوجہد کے کسی بھی موڑ پر سمجھوتے یا اصولوں پر سودے بازی کی بات نہیں کی۔انکی زندگی اس اصولی موقف کے گرد گزری کہ فلسطین کی آزادی پر کسی حال میں سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔ یہی سبب ہے کہ اسرائیلی حکومت اور فوج دونوں ہی اُنہیں شھید کرنیکے درپے رہتی تھیں اور بالآخر اُنہوں نے اپنا یہ مقصد حاصل کرہی لیا۔سربراہ حماس اسماعیل کی قیادت میں حماس نے اپنے آپکو اسرائیل کی جارحیت کیخلاف ثابت قدم رہنے کیلئے اچھی طرح تیار کیا۔ حماس کے کارکنوں کیلئے اسماعیل ہانیہ کا حوصلہ مشعلِ راہ کے مانند تھا۔ وہ اپنی تقریروں میں انتہائی جوش و خروش کیساتھ اس نکتے پر زور دیتے تھے کہ کامیابی یا ناکامی کے بارے میں زیادہ سوچے بغیر ہمیں اپنے کاز پر دھیان دینا چائیے.خیال کیا جارہا تھا کہ اپنے تین بیٹوں، 1بہن اور پوتے کی شھادت سے سربراہ حماس اسماعیل ہانیہ کے پائے استقامت میں لغزش پیدا ہوگی اور وہ اب اپنے موقف میں کسی حد تک نرمی پیدا کرنے پر مائل ہونگے. مگر ایسا نہ ہوا۔ سربراہ حماس کا یہ موقف مرتے دم تک برقرار رہا کہ اسرائیل سے فلسطینی مقبوضہ علاقے خالی کرانے تک سُکون سے نہیں بیٹھا جاسکتا ہے اور فلسطینی شھدا کے خون سے کسی طور غداری نہیں کی جائیگی.

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کون تھے؟
سربراہ حماس اسماعیل ہانیہ غزہ کے قریب 1 پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1980 کی دہائی کے آخر میں حماس میں شمولیت اختیار کی اور تیزی سے حماس کے بانی اور روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین کے قریبی ساتھی بن گئے۔1980 اور 1990 کی دھائیوں میں سربراہ حماس اسماعیل ہانیہ نے اسرائیلی جیلوں میں کئی سزائیں کاٹیں۔ 2006 کے قانون ساز انتخابات میں حماس کی جیت کے بعد وہ فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کے وزیر اعظم بن گئے۔ تاہم یہ قلیل مدتی رہا کیوں کہ اگلے سال انھیں 2007 میں صدر محمود عباس نے انکے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔دس برس بعد 2017 میں انہیں حماس کے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ اسی سال، اسماعیل ہانیہ کو امریکا نے خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشتگرد قرار دیا تھا۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں