26ویں آئینی ترمیم کی وفاقی کابینہ اور سینیٹ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی سے منظوری کے لیے اجلاس کا آغاز ہوگیا ہے۔ جہاں آئینی ترمیم پیش کر دی گئی۔
قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی حمایت سے منتخب ہونے والے 5 ارکان حکومتی بینچوں پر موجود ہیں، ان ارکان میں چوہدری الیاس، عثمان علی، مبارک زیب، ظہور قریشی اور کھچی شامل ہیں،
حکومتی لابی میں ریاض فتیانہ، زین قریشی ، مقداد حسین ، اسلم گمھن بھی موجود ہیں حکومت کو اس آئینی ترمیم کے لیے 5 ارکان اسمبلی کی ہی حمایت کی ضرورت ہے۔
اتوار کی شب اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم کا سینیٹ سے منظور شدہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آج ایک تاریخ سازدن ہے، جیسا کہ اس ایوان کے علم میں ہے کہ 2006 میں میثاق جمہوریت کا معاہدہ ہوا جس پر خصوصاً شہید بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور خود بانی پی ٹی آئی عمران خان کے بھی دستخط موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت کے بہت سے نکات پر عملدرآمد ہو گیا ہے، جس میں سے ایک آج 26 ویں آئینی ترمیم کے سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور ہونا بھی شامل ہے۔ میثاق جمہوریت میں سب سے اہم ایجنڈا آئینی عدالت کا قیام تھا۔
اس کے علاوہ وفاقی وزیر نے کہا کہ ترمیم کے مسودے میں سے ایک سپریم کورٹ کے آئینی بنچوں سے متعلق ہے۔
عدالتی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے خاص طور پر کسی کا نام لیے بغیر ایک سابق چیف جسٹس کا حوالہ دیا جو اکثر سوموٹو نوٹس جاری کرتے تھے۔ تارڑ نے ریمارکس دیے کہ ہماری عدالتوں کی طرف سے منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیج دیا جاتا رہا ہے۔
بل کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اندر آئینی بینچ قائم کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ججوں کا تقرر جوڈیشل کمیشن کرے گا اور کمیشن کو ججز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا اختیار ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آئینی بینچ کمیشن تشکیل دے گا اور سپریم کورٹ کی مدت 3سال تک محدود رہے گی جس میں سپریم کورٹ کے 3سینیئر ترین ججوں میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کیا جائے گا۔
ججوں کی تقرری میں مقننہ کے کردار کو بڑھانے کے لیے، اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کا تقرر کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ صوبوں میں آئینی بینچ قائم کیے جاسکتے ہیں۔ وفاقی وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ بل کا مقصد عام آدمی کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 6 اور 7 والے چیف جسٹس آئے تو سب نے دیکھا کیا ہوا۔
یہ عام شکایت ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں کچھ جج صاحبان بہت اچھا کام کرتے ہیں اور کئی صاحبان اپنی طبعیت کے مطابق کام کرتے ہیں، ایک عدالت میں 15 مقدموں کا فیصلہ ہوتا ہے تو دوسری عدالت میں ایک مقدمے کا فیصلہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو جج کام نہیں کرتا، اس کا جائزہ لیا جائے گا، اس کی رپورٹس جوڈیشل کمیشن میں آئیں گی، عوام کے ٹیکسوں سے سارا نظام چلتا ہے، جو کام نہیں کرتا وہ اب گھر جائے گا۔ خود احتسابی کا عمل ہر ادارے میں ہونا چاہیے۔
ہمارا نوجوان ٹیلنٹ سامنے آ رہا ہے اس لیے ہائیکورٹ میں تقرری میں عمر کی حد 45 سے کم کر کے 40 کر دی گئی ہے۔