بنگلہ دیش میں عبوری حکومت سےمتعلق امریکابھی میدان میں آگیا
امریکا کے محکمہ خارجہ نے بنگلہ دیش کی صورتحال بارے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے قیام کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ بنگلہ دیش کی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں، پچھلے بہت روز کے دوران وہاں متعدد جانیں ضائع ہوئیں جن پر شدید افسوس ہے، ان اموات کا احتساب یقینی بنانے کیلئے مکمل اور شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکا بنگلا دیش کے عوام کیساتھ کھڑا ہے ،
اقتدار کی منتقلی بنگلادیش کے آئین کے مطابق ہونی چاہئے.ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش میں تمام فریقین صبروتحمل کا مظاہرہ کریں ، امریکا کو ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ فوج نے طلبہ کی قیادت میں ہونیوالے مظاہروں پر مزید کریک ڈاؤن کرنیکے دباؤ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر یہ حقیقت میں درست ہے کہ فوج نے قانونی مظاہرین کیخلاف کریک ڈاؤن کے مطالبے کی مزاحمت کی تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہو گی۔ملک میں اتوار تک پرتشدد مظاہروں میں 3 سو سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد حسینہ واجد نے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیدیا تھا اور آرمی چیف قمرالزمان نے آج ملک میں عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
برطانوی میڈیا کے مطابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کو آرمی چیف نے 45منٹ کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں 1971 کی جنگ لڑنیوالوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں تیس (30) فی صد کوٹہ دیے جانیکے خلاف پچھلے ماہ کئی روز تک مظاہرے ہوئے تھے جن میں دو سو افراد ہلاک ہوئے ،
جسکے بعد سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم کو ختم کردیا تھا مگر طلبہ نے اپنے ساتھیوں کو انصاف نہ ملنے تک احتجاج جاری رکھنے اور سول نافرمانی کی کال دے تھی اور ڈھاکہ کی طرف مارچ کا اعلان کیا تھا۔شیخ حسینہ واجد کے استعفیٰ کے بعد بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے فوجی قیادت سے ملاقات میں مختلف سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی پر مشتمل عبوری حکومت قائم کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا جبکہ فوج سے کہا گیا تھا کہ وہ جاری لوٹ مار بند کرائے اور قانون کی بلادستی بحال کرائی جائے۔