معاشی ترقی کیلئے خواتین کی زرعی شعبے میں تربیت ضروری ہے، ماہرین

زراعت اور تحفظ خوراک کے شعبوں میں خواتین کے کردار کو تسلیم کیا جانا چاہئے۔پاکستان میں اقتصادی ترقی اور غذائی تحفظ کو فروغ دینے کے لئے زراعت میں خواتین کی پہچان اور ان کو بااختیار بنانا بہت اہم ہے۔ غذائیت، پروسیسنگ، اور برآمدات۔ خوراک کی غیر مساوی تقسیم سے نمٹنے کے لئے کسانوں کو حالیہ چیلنجز کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ان خیالات کا اظہار مقررین نے یہاں پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام”غذائی نظام کی تبدیلی میں خواتین کا کردار“ کے موضوع پر منعدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا اہتمام گین اور ایریڈ ایگریکلچر یونیورسٹی کے اشتراک سے کیا گیا تھا۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایریڈ ایگریکلچر یونیورسٹی کی ڈپٹی رجسٹرار ڈاکٹر نازیہ رفیق نے کہا کہ پاکستان کی آبادی 25 کروڑ ہے جس کے لئے 7 کروڑ ٹن تیار خوراک کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ غذائی سیکیورٹی، صحت، عالمی حدت، خواتین کی خودمختاری سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں خواتین کو کاشتکاری کے جدید طریقوں کی تربیت دے کر معاشی ترقی کے اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے مذید کہا کہ غذائی سیکیورٹی کو یقینی بنانےکیلئے قابل رسائی اور خریداری کی صلاحیت اہم عوامل ہیں جو کھانے کی عادات اور استعمال کی روایات کا تعین کرتے ہیں۔ ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر قاسم علی شاہ نے کہاکہ ہمیں خودکفالت کی منزل تک پہنچنے اور بھوک کا خاتمہ کرنے کیلئے زراعت کے شعبے میں کسی نہ کسی شکل میں اپنا حصہڈالنا ہوگا۔ انہوں نے زرعی لیبر فورس سروے کے اعدادوشمار کے حوالے سے بتایا کہفارم کی سطح پر زراعت میں 77 فیصد خواتین اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ خواتین فارم میں 50 گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت گزارتی ہیں۔لیکنانہیں 35 سے 40 فیصد کم اجرت دی جاتی ہے اور اکثر کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا ۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میںصرف 3 فیصد زمین خواتین کے پاس زرعی زمین ہے۔ گین انٹر نیشنل کی فرح ناز نے کہا کہ غذائی نظام کی ابتدا زراعت، پیداوار، فصل کی کٹائی، اور خوراک کی پروسیسنگ سے ہوتی ہے۔خواتین زراعت میں بیج سے کھانے کی میز تک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان میں سبزیاں بنیادی طور پر خواتین ہی پیدا کرتی ہیں۔ انہوں نے مذید کہا کہ خواتین اور خاص کر ہماری نوجوان بچیاں خون کی کمی اور متعدد وٹامن کی کمی جیسے مسائل سے دوچار ہیں جس کی بنیادی وجہ غیر متوازن خوراک اور زیادہ پروسیسڈ فوڈز کا استعمال ہے۔ انہوں نے کہا کہخواتین کا عالمی سطح پر غذائیت اور موسمیاتی لچکدار غذائی نظام میں بڑا تعاون ہوتا ہے، پاکستان میں بھی اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے کردار کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے حکومت کے پاس ان کی تربیت اور بہتری کیلئے کوئی پالیسیاں ہیں اور نہ ہی وسائل مختص ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو ان کے تعاون کی بنیاد پر ہر شعبے میں کوٹہ دیا جانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہغذائی نظام کی تبدیلی کو غذائیت میں جدت پر مرکوز ہونا چاہئے تاکہ غذائی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔ یونیورسٹی کی جانب سے متعدد تربیتی سیشنز کا انعقاد کیا جانا چاہئے اور طلباءکو اس میں حصہ لینا چاہئے ۔یونیورسٹی کے پی ایس ڈی پی منصوبے کی ٹیکنیکل ڈائریکٹرڈاکٹر عابدہ، نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ عالمی سطح پر پیدا ہونے والی ایک تہائی خوراک یا تو ضائع ہو جاتی ہے یا برباد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حیران کن اعداد و شمار اس بحران کو کم کرنے کے لئے ماحولیاتی لحاظ سے دوستانہ پروسیسنگ ٹیکنالوجیز کو اپنانے کی فوری ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ خوراک کے نظام کی تبدیلی میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے غذائیت کے جدید حل پر توجہ مرکوز کرنا بہت ضروری ہے۔سیمینار کا اختتام اس اتفاق رائے کے ساتھ ہوا کہ پاکستان میں اقتصادی ترقی اور غذائی تحفظ کو فروغ دینے کے لئے زراعت میں خواتین کی پہچان اور ان کو بااختیار بنانا بہت اہم ہے۔ SDPI، GAIN، اور ایریڈ ایگریکلچر یونیورسٹی کی مشترکہ کوششیں خواتین کے خوراکی نظام کی تبدیلی میں ناگزیر کردار کو اجاگر کرکے بامعنی تبدیلی لانے کی خواہاں ہیں۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں