بنگلہ دیش:1سو5 افراد کی ہلاکت کے بعد کرفیو نافذ

بنگلہ دیش:1سو5 افراد کی ہلاکت کے بعد کرفیو نافذ

ڈھاکا: بنگلہ دیش میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کیخلاف طلبہ کے احتجاج میں مزید شدت آگئی ہے اور پولیس کی کارروائیوں کے دوران مزید تین افراد جاں بحق ہوگئے ہیں ،جب کہ بنگلہ دیش حکومت نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کردیا اور فوج طلب کرلیا ۔بی بی سی بنگلہ کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی وزارت داخلہ نے ملک بھر میں کرفیو کے نفاذ اور فوج کی تعیناتی کا سرکلر جاری کردیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امن و عامہ اور ملک بھر میں شہریوں کی سلامتی کیلئے سندھیا ایکٹ کے تحت اسپیشل پاور ایکٹ 1974 کے مطابق کرفیو کے نفاذ پر فوری طور پر عمل درآمد ہوگا۔سرکلر میں بتایا گیا ہے کہ شہری علاقوں میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، ضلعی انتظامیہ اور کمشنر آف پولیس احکامات کے مطابق اس پر عمل درآمد کرینگے. اور فوج کی تعیناتی کیلئے سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر تمام ضروری اقدامات کرینگے.

مقامی میڈیا نے بتایا کہ جمعے کو طلبہ پر پولیس کے کریک ڈاون کے دوران مزید تین افراد جاں بحق ہوئے اور پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کے شیل فائر کئے. ڈھاکا میں پولیس کی جانب سے فائر کئے گئے آنسو گیس کے شیل کے نتیجے میں کئی علاقوں میں دھواں پھیلا ہوا تھا۔وزارت داخلہ کے شعبہ تعلقات عامہ کے افسر شریف احمد نے بتایا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا پولیس کمشنر کرفیو کے دورانیے اور حالات یا ایوننگ لا کا تعین کرینگے.۔غیرملکی خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیشی حکومت نے سرکاری نوکریوں میں کوٹہ کیخلاف طلبہ کے شدید احتجاج کو روکنے میں پولیس کی ناکامی کے بعد کرفیو نافذ کرنے اور فوج کی طلبی کا فیصلہ کیا ہےبنگلہ دیش میں طلبہ کے احتجاج کے دوران اب تک جاں بحق ہونیوالے افراد کی تعداد بڑھ کر 1سو5 ہوگئی ہے۔اے ایف پی نے رپورٹ میں بتایا کہ ڈھاکا میڈیکل کالج ہسپتال میں آویزاں کی گئی فہرست کے مطابق جمعے کو دارالحکومت میں 52 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔

قبل ازیں پولیس نے سخت اقدامات کرتے ہوئے جمعے کو عوامی اجتماعات پر مکمل پابندی عائد کردی تھی۔ سربراہ پولیس حبیب الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے ڈھاکا میں عوامی اجتماعات ، ریلیوں، مظاہروں پر پابندی عائد کردی ہے، جو عوامی تحفظ یقینی بنانےکیلیے ضروری تھا۔دوسری طرف مشتعل طلبہ نے ان پابندیوں کو توڑتے ہوئے احتجاج جاری رکھا تاہم اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئی جب کہ انٹرنیٹ بھی بند کردیا گیا تھا۔ڈھاکا میں جاری احتجاج کے دوران پولیس کے بے رحمانہ تشدد کے نتیجے میں معمولی زخمی ہونے والے سرور توشار نے بتایا کہ ہمارا احتجاج جاری رہیگا.ان کا کہنا تھا کہ ہم فوری طور پر شیخ حسینہ واجد کا استعفیٰ چاہتے ہیں، حکومت ان افراد کے جاں بحق ہونے کی ذمہ دار ہے۔شناخب ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پولیس افسر نے بتایا کہ طلبہ نے احتجاج کے دوران مرکزی بنگلہ دیش کے ضلع نارسنگدی میں ایک جیل کو نذر آتش کردیا جب کہ آگ لگانے سے قبل اپنے ساتھیوں کو آزاد کرادیا۔انکا کہنا تھا کہ مجھے رہا ہونے والے افراد کی تعداد کا علم نہیں ہے لیکن یہ تعداد سیکڑوں میں ہوگی۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں