شہباز شریف حکومت کی معاشی اصلاحات: چیلنجز اور پیش رفت
شہباز شریف حکومت کیجانب سے گزشتہ ایک سال کے دوران مالیاتی شعبے میں کیجانیوالی اصلاحات کے بے مثال اثرات مرتب ہوئے ہیں، اہم معاشی مسائل سے نمٹنے اور طویل مدتی ترقی کیلئے فریم ورک تشکیل دیا گیا ہے۔ تاہم، اب بھی ٹیکس بیس کو بڑھانے، طویل مدتی قرضوں کے انتظام کی ضمانت، ایس ایم ای فنانسنگ کی دستیابی میں اضافہ اور ریگولیٹری نفاذ کو مضبوط بنانے کے چیلنجوں کا سامنا ہے.
مشال پاکستان کیجانب سے حال ہی میں جاری کردہ “ دی پاکستان ریفارمز رپورٹ 2025“ میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے، جس میں پورے سال یعنی جنوری 2024 سے فروری 2025 تک اصلاحات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
رپورٹ میں شہباز شریف حکومت کی 1سو20 سے زائد اصلاحات کا جائزہ لیا گیا جس میں 2024 میں گورننس، معاشی استحکام اور سماجی شمولیت پر توجہ دی گئی۔یہ رپورٹ اصلاحات کی تاثیر یا معیار پر تبصرہ نہیں ہے بلکہ ان قانونی اور ساختی تبدیلیوں کو دستاویزی شکل دینے کی کوشش ہے جنھوں نے ملک کے معاشی، سماجی اور سیاسی منظر نامے کو تشکیل دیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024 کے عام انتخابات میں بے ضابطگیوں کے الزامات سامنے آئے، جسکی وجہ سے پولرائزیشن میں اضافہ ہوا اور ایک منقسم حکومتی ماحول پیدا ہوا، جہاں اپوزیشن جماعتوں اور عام لوگوں نے پالیسیوں کے نفاذ کی مخالفت کی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی ڈیجیٹل تبدیلی ایک نازک دوراہے پر ہے۔
اگرچہ ریگولیٹری اصلاحات اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں نے ملک کو بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل معیشت کے طور پر کھڑا کیا ہے ، لیکن انٹرنیٹ کی پابندیوں ، سائبر سیکورٹی کے نفاذ اور بیوروکریٹک نااہلیت کے بارے میں خدشات ترقی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ایک متوازن نقطہ نظر ، جو آن لائن آزادی کے تحفظ کیساتھ ساتھ سیکورٹی کو ترجیح دیتا ہے ، صارفین کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے سرمایہ کاری کی سہولت فراہم کرتا ہے اور ضرورت سے زیادہ ریگولیشن کے بغیر جدت طرازی کو فروغ دیتا ہے – عالمی ڈیجیٹل منظرنامے میں پاکستان کی طویل مدتی کامیابی کی کلید ہوگی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ نیب نے مزید جوابدہ ہونے کی کوششوں میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے لیکن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کے کئی طریقوں کی جانچ پڑتال کی گئی ہے۔ مبصرین کی جانب سے تحقیقات میں واضح انتخاب کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا ہے اور کچھ اسٹیک ہولڈرز تمام شعبوں میں احتساب کے لیے زیادہ مستقل اور کھلے نقطہ نظر کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سیاسی حرکیات اور تفتیشی ترجیحات کے درمیان فرق کے بارے میں مزید وضاحت کے ساتھ ساتھ غیر جانبداری کی ضمانت دینے کیلیے مضبوط طریقہ کار کے حفاظتی اقدامات کی ضرورت کی تجویز دی گئی ہے۔
سی سی پی کیجانب سے گزشتہ سال کے مقابلے میں جرمانے کی مد میں دس کروڑ روپے کی وصولی تشویشناک حد تک کم ہے۔ سخت پابندیوں، تیز تر فیصلے اور زیادہ مضبوط قانونی حمایت کی عدم موجودگی میں سی سی پی کا اثر عملی سے زیادہ علامتی رہے گا، جو مارکیٹ میں ہیرا پھیری کے خلاف حقیقی رکاوٹ فراہم کرنے میں ناکام رہیگا.
رپورٹ میں مزید نشاندہی کی گئی ہے کہ اسلام آباد میں سی سی پی ہیڈکوارٹر ز کی تعمیر کا انتخاب زیادہ متنازع ہے جسکا سنگ بنیاد مارچ 2025 میں رکھا جائیگا۔ سی سی پی منصفانہ دلیل دیتی ہے کہ وہ اپنی عمارت رکھنے سے لیز پر لے نے کے اخراجات میں سالانہ 1سو10 ملین روپے کی بچت کریگی۔ تاہم، کمیشن کی موجودہ بجٹ کی حدود، قانونی معاملات میں بیک لاگ اور نفاذ کی خامیوں کو دیکھتے ہوئے ریگولیٹری عمل کو مضبوط بنانے کے بجائے بنیادی ڈھانچے کو ترجیح دینا مشکوک معلوم ہوتا ہے۔ سی سی پی کو ٹھوس اثاثوں میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے مارکیٹ کی مداخلت، صلاحیت کی تعمیر اور قانونی اصلاحات کو نافذ کرنے کو ترجیح دینی چاہیئے.
اندرون ملک فریٹ برابری مارجن (آئی ایف ای ایم) کی ڈی ریگولیشن ایک اہم ساختی تبدیلی ہے جس کا مقصد بنیادی ڈھانچے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا اور مسابقتی ایندھن کی نقل و حمل کو فروغ دینا ہے۔ اگرچہ یہ تبدیلی مارکیٹ مسابقت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ، لیکن اس سے علاقائی قیمتوں میں فرق بھی ہوسکتا ہے ، جو دیہی علاقوں میں صارفین کو غیر متناسب طور پر متاثر کریگا.ملک بھر میں ایندھن کی منصفانہ قیمتوں کو یقینی بنانے کے لئے، پالیسی سازوں کو ڈی ریگولیشن کو متوازن کرنا ہوگا۔اگرچہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے نتیجے میں توانائی کے شعبے میں خاطر خواہ تبدیلی آئی ہے ، لیکن اب بھی بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں۔ اگرچہ ڈسکوز کی نجکاری سے خدمات کی کارکردگی اور معیار کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ، لیکن ڈھانچہ جاتی اور سیاسی رکاوٹوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
ایک اہم مسئلہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) ماڈل ہے، جسے اب بھی غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا سامنا کرنا پڑیگا کیون کہ خریداری کے نئے طریقہ کار کے باوجود ریگولیٹری پیچیدگیاں ہیں۔ مزید برآں، پاکستان کی گرین بانڈ مارکیٹ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور گرین فنانس چینلز کی طرف منتقلی آہستہ آہستہ ہوئی تھی۔پاکستان میں امن و امان کی اصلاحات کے نتیجے میں سیکیورٹی، گورننس اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بتدریج بہتر ہو رہا ہے۔ تاہم، ان ضوابط کی تاثیر کا حتمی پیمانہ ان پالیسیوں کے اخلاقی اطلاق کو یقینی بنانا، حد سے تجاوز کے خدشات کو دور کرنا اور سلامتی اور شہری آزادیوں کے درمیان توازن برقرار رکھ نا ہوگا.وزارت قانون و انصاف نے پاکستان کے قانونی نظام کو تبدیل کرنے میں قابل ستائش پیش رفت کی ہے۔ لیکن، یہ تبدیلیاں طویل مدت میں صرف اسی صورت میں کامیاب ہونگی جب ان پر کھلے عام عمل درآمد کی جائے، ججوں کیطرف سے باقاعدگی سے جائزہ لیا جائے، اور عام لوگوں کی طرف سے اعتماد کیا جائے.