عالمی بینک کا پاکستان سے مزید اقدامات کا مطالبہ
عالمی بینک نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی آبادی کے لیے بہتر معاشی ترقی اور خوشحالی کے حصول کے لیے وسیع پیمانے پر اصلاحات کرے، اس نے اخراج کو روکنے کے لیے کاربن کی قیمتوں کے ذریعے آب و ہوا سے متاثرہ ممالک کو معاوضہ دینے کے لیے عالمی لائحہ عمل کی بھی وکالت کی۔ورلڈ بینک کے نائب صدر برائے جنوبی ایشیا مارٹن رائسر نے ایک خصوصی گفتگو میں پاکستان کو درپیش بہت سے مسائل کے لیے توانائی، پانی اور محصولات کے شعبوں میں محدود اور دیرینہ اصلاحات کے فقدان کو ذمہ دار ٹھہرایا اور سرمایہ کاری بالخصوص توانائی کے شعبے میں معاہدوں کے تقدس کے تحفظ پر زور دیا۔مارٹن رائسر نے کہا کہ پاکستان نے کچھ ابتدائی فیصلے کیے ہیں جو درست سمت میں گئے لیکن بہت سے اچھے فیصلوں کی ضرورت ہے اور ان فیصلوں پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک کے پاس 2015 کے بعد پاکستان کے ساتھ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک (سی پی ایف) نہیں تھا،
اس عرصے میں کورونا وبا اور پھر سیلاب آیا تھا، لہٰذا بینک نے اب 10 سال کی طویل مصروفیت پر غور کیا ہے کیونکہ کچھ مسائل بہت غیر معمولی تھے جنہیں 3 سے 4 سالوں میں حل نہیں کیا جا سکتا تھا۔مارٹن رائسر نے کہا کہ ’آب و ہوا کی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہمیں قیمتوں کا تعین کرنے والے آلات کی ضرورت ہے جو کاربن کے اخراج کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ یہ لچک میں سرمایہ کاری کے لیے وسائل پیدا کرسکے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی انصاف اور تاریخی اخراج کرنے والوں سے متاثرہ افراد تک منتقلی سیاست کی وجہ سے عالمی مذاکرات میں بہت پیچیدہ ہے، حالانکہ معاوضے کا اخلاقی مقدمہ بہت مضبوط ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ چونکہ عالمی بینک کوپ 28 کے نتیجے میں خسارے اور نقصان کے فنڈ کی میزبانی کر رہا ہے، لہٰذا بہت زیادہ فنڈنگ کی ضرورت ہے تاکہ آب و ہوا میں اس طرح کی سرمایہ کاری کا کم از کم 50 فیصد ان ممالک کی مدد کے لیے استعمال کیا جاسکے جو موسمیاتی بحران کے ذمے دار نہیں ہیں،
لیکن باقاعدگی سے متاثر ہوتے ہیں اور نتائج کی تیاری میں مدد کی ضرورت ہے۔عالمی بینک کے نائب صدر نے کہا کہ عالمی بینک نے چنیدہ اور زیادہ نتیجہ خیز بننے کا فیصلہ کیا ہے اور ورلڈ بینک گروپ کے آلات اور فنانسنگ ماڈلز کے امتزاج کے ذریعے مضبوط عمل کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ دونوں فریق ٹھوس اہداف پر توجہ مرکوز رکھیں۔توانائی کے مسائل کا سبب بننے والی بینکوں اور حکومتی پالیسیوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان توانائی کی بہت زیادہ قیمتیں ادا کر رہا ہے اور اسے توانائی کی قلت کا سامنا ہے جس نے معیشت کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے اور بجلی کے نظام کو موثر بنانے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے، ہنگامی ضرورت کی وجہ سے پاکستان کو نسبتاً مہنگے معاہدے کرنا پڑے، لیکن اُس وقت تک یہ مستحکم میکرو اکنامک صورتحال میں نہیں تھا اور سسٹم اب بھی اس وراثت کو لے کر چل رہا ہے۔تاہم، اس دوران اصلاحات کے نفاذ میں طویل تاخیر، جس سے تقسیم کے نظام کی گورننس میں بہتری آتی اور ٹیرف جو پچھلے سال تک اخراجات کی عکاسی نہیں کرتے تھے،
وقت کے ساتھ ساتھ کم سرمایہ کاری جمع ہونے کا باعث بنے۔مارٹن رائسر نے کہا کہ پاکستان نے حال ہی میں کچھ پیش رفت کی ہے، لیکن اسے اب بھی اضافی اصلاحات، ٹرانسمیشن انفرااسٹرکچر میں اضافی سرمایہ کاری اور گرڈ استحکام کے امتزاج کے ذریعے نظام کی لاگت کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ روایتی طور پر اس کے پاس کم بفرز تھے اور معیشت بہت سے دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ متاثر ہوئی تھی جنہوں نے ان بفرز کا استعمال کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک دہائی قبل پاکستان بہت تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور ہر کسی کو امید تھی کہ یہ سفر جاری رہے گا، لیکن سیلاب اور کورونا سمیت جھٹکوں کی وجہ سے اس میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔
ورلڈ بینک کے نائب صدر نے کہا کہ ’بہتر نظام حکمرانی، بہتر نظام کی منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کے بنیادی مسائل سے ہدف کے مطابق نمٹنے کا کوئی متبادل نہیں ہے‘، انہوں نے مزید کہا کہ قابل تجدید توانائی اور پن بجلی کی توسیع سے آہستہ آہستہ لاگت میں کمی آئے گی اور صارفین کے لیے خدمات کے معیار میں بہتری آئے گی۔آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے مارٹن رائسر نے کہا کہ سرمایہ کاروں کے ساتھ اس طرح کی بات چیت کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ اس مفروضے پر معاہدے کرتے ہیں کہ دونوں فریق اس پر قائم رہیں گے اور معاہدوں کا احترام کیا جائے گا۔تاہم انہوں نے کہا کہ بدلتے ہوئے حالات کے جائزے کی بنیاد پر منظم انداز میں قرضوں کی رضاکارانہ ری پروفائلنگ ہوسکتی ہے لیکن سرمایہ کاروں کے اعتماد کے تحفظ کے لیے معاہدوں کے تقدس کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ عالمی بینک کے بعض سرمایہ کاری منصوبوں اور اصلاحات میں مختلف وجوہات کی بنا پر توقع سے کہیں زیادہ وقت لگا ہے جن میں متضاد اور غیر مربوط نقطہ نظر اور داخلی پالیسی میں اتفاق رائے کا فقدان شامل ہے جس کی وجہ سے کچھ ناکامیاں ہوئی ہیں لیکن ماضی میں کامیابی کی اچھی کہانیاں بھی تھیں، بینک نے سبق سیکھتے ہوئے اس بار مستقبل کے لیے 6 شعبوں کا انتخاب کیا جو مثبت نتائج پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
محصولات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مارٹن رائسر نے کہا کہ اس کی ماضی کی سرگرمیاں نے ٹیکس کے انتظام اور جنرل سیلز ٹیکس کو آسان بنانے میں نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہیں ، دونوں نے جی ڈی پی بڑھانے میں تقریبا 0.5 فیصد اضافہ کیا ہے لیکن مجموعی طور پر پاکستان کا ٹیکس نظام اس مرحلے تک نہیں پہنچا ہے کہ ٹیکس دہندگان بدلے میں بہتر خدمات کی توقع کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ ٹیکس کا نظام اس حد تک نہیں پہنچا ہے کہ امیر لوگ اچھی خدمات کے حصول کے لیے ٹیکس ادا کرنے پر یقین رکھیں یا انہیں ٹیکس ادا کرنے کی ترغیب ملے، انہوں نے مزید کہا کہ امیروں کو اپنے طور پر سیکیورٹی گارڈز کا انتظام کرنا پڑتا ہے، تعلیم اور صحت اور ٹرانسپور کے نظام پر خرچ کرنا پڑتا ہے اور اسی وجہ سے وہ کاروبار کو زیادہ پیسہ کمانے اور اچھی خدمات حاصل کرنے کے قابل بنانے کے بجائے باہر نکلنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف نفاذ کا معاملہ نہیں ہے
بلکہ اخراجات کی کارکردگی کا بھی معاملہ ہے اور پاکستان کو دونوں کام کرنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ عالمی بینک ٹیکس کے نظام کی ڈیجیٹلائزیشن کی حمایت کرے گا جس سے کچھ اضافی کارکردگی ملے گی اور اس کے لیے سیاسی حمایت کا عنصر بھی درکار ہوگا۔عالمی بینک کے نائب صدر نے کہا کہ پاکستان کو سماجی تحفظ کے پروگراموں کو بہتر بنانے اور انسانی ترقی اور صحت کی دیکھ بھال کے لیے مزید وسائل چھوڑنے کے لیے سبسڈی اور ٹیکس چھوٹ کو کم کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ سماجی تحفظ کے وفاقی اور صوبائی پروگراموں کو ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ نقل کے بجائے بہتر تکمیل ہو سکے۔
انہوں نے پانی کے شعبے میں اصلاحات کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں تیار کردہ بنیادی ڈھانچوں کو چلانے اور ان کی دیکھ بھال کے لیے آمدنی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ موثر خدمات فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں، انہوں نے کہا کہ عالمی بینک نے حکومت پاکستان کو آگے بڑھانے کے لیے پانی کی تشخیص کا مطالعہ تقریباً مکمل کر لیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایئر کوالٹی انڈیکس کو بہتر بنانے کے لیے ریگولیٹری اور پالیسی دونوں طرح کی مداخلت کی ضرورت ہے اور بینک ابتدائی طور پر اس سمت میں پنجاب حکومت کی مدد کریگا