پہلے کچھ غلط ہوگیا تو اب اسے درست کیا جائیگا، سردار صادق
اسپیکر قومی اسمبلی سردار صادق کا کہنا ہے کہ ذاتی حملوں کی بجائے مسائل پر بات کرنے سے ایوان خوشگوار ماحول میں چل سکتا ہے اور تلخیاں کم کرنے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہے۔ تمام مسائل کا حل پارلیمان کے ذریعے ممکن ہے, ایوان میں بیٹھے تمام اراکین آپس میں کولیگز ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کا تحفظ کرنا ہے اور ایک دوسرے کا بازو بننا ہے۔ اسپیکر نے کہا کہ پروڈکشن آرڈز جیسے ایشوز پر کوشش ہوتی ہے کہ جو پہلے غلط ہوا ہے وہ اب نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ سردار ایاز صادق نے اٹھارویں سپیکرز کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطابت کرتے ہوئے کہا کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں ،آزاد جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی اور گلگت بلتستان اسمبلی کے مابین تعاون اور ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لئے سیکرٹریز، چیف وہپس اور پی اے سی اراکین کی ایسوسی ایشنز بنائی جائیں۔
اسپیکر نے مزید کہا کہ سپیکر اور جج کا منصب اہم ہوتا ہے، اس منصب پر بیٹھ کر صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، سپیکر کی نظر میں تمام اراکین یکساں ہوتے ہیں۔
اسپیکر سردار ایاز صادق نے اٹھارویں سپیکر کانفرنس کی افتتاحی تقریب کے شرکا کا خیر مقدم کیا۔۔ کانفرنس میں ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی سید غلام مصطفی شاہ، چاروں صوبائی اسمبلیوں، گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلیوں کے سپیکرز اور
اراکین کے وفود نے شرکت کی۔
اس موقع پر صوبائی اور قانون ساز اسمبلیوں کے اراکین کے وفود، سیکرٹری جنرل قومی اسمبلی طاہر حسین سمیت تمام صوبائی اور قانون ساز اسمبلیوں کے سیکرٹریز موجود تھے۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہ سپیکر کا کام سب سے مشکل ہوتا ہے، اسپیکر کا کردار ایک ثالث کا کردار ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو زیادہ وقت دیں تو حکومت ناراض ہو جاتی ہے اور اگر حکومت کو زیادہ وقت دیں تو اپوزیشن ناراض ہو جاتی ہے، پہلی قطار والے کو وقت دیں تو پچھلی قطاروں والے ناراض ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پروڈکشن آرڈز جیسے ایشوز پر کوشش ہوتی ہے کہ پہلے اگر کچھ غلط ہوا ہے تو اب نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کا تحفظ بھی کرنا ہے اور بغیر کسی دباؤ کے ایوان کو بھی چلانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی، سینیٹ، چاروں صوبائی اسمبلیوں، آزاد جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی اور گلگت بلتستان اسمبلی کے سیکرٹریٹس کا اس کانفرنس کے انعقاد میں کلیدی کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات رولز میں شامل کررہے ہیں کہ سپیکرز کانفرنس باقائدگی سے سالانہ بنیادوں پر ہونی چاہیے۔ آئندہ کانفرنس کی تاریخ اور مقام کا اعلان اٹھارویں اسپیکرز کانفرنس کی اختتامی نشست میں ہوجائے گا۔
انہوں نے تجویز دی کہ سیکرٹریز ،پارٹی وہپس اور صوبائی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اراکین کی الگ الگ ایسوسی ایشنز بنائی جائیں جو باقاعدگی سے رابطے میں رہیں اور ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوری نظام کے تعطل سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بیک لاگ ہوا جس کا بڑا حصہ چوہدری نثار علی خان اور سید خورشید احمد شاہ نے بطور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اپنے ادوار میں ختم کیا۔ قومی اسمبلی میں پی اے سی کی سب کمیٹیاں اور مانیٹرنگ کمیٹی بنا کر امور کو شفاف بنایا جاتا ہے۔ اسپیکر نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی وزارتوں اور محکمہ جات کو جواب دے بناتی ہے اور اس کے اجلاس باقاعدگی سے ہوتے ہیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سفارشات پر عمل درامد کروا کر اربوں روپے کی وصولیاں کی گئیں ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی نے صوبائی اسمبلیوں کو قانون سازی کر کے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے کردار کو موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ 2013 میں قومی اسمبلی کو یونیورسٹی اور کالجز کے طلبہ و طلبات کے لیے کھول دیا گیا اور قومی اسمبلی میں انٹرنشپ کے لیے ساڑھے تین ہزار درخواستیں موصول ہوئیں۔ اسپیکر نے مزید کہا کہ سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کو انٹرنشپ کا موقع دیا گیا۔ اسپیکر نے صوبائی اسمبلیاں بھی طلبہ و طالبات کو انٹرنشپ کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا کے۔
انہوں نے کہا کہ ایوان میں وہپس کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ تمام اراکین کو بولنے کا مساوی موقع دیں، اس کے لیے وہپس سے مشاورت کے ساتھ چلتے ہیں۔
انہوں نے معیشت، ماحولیاتی تبدیلیوں اور بے روزگاری جیسے ایشوز پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان ایشوز پر ایوانوں میں مل بیٹ کر بات کرنا ہونا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پارلیمنٹری سروسز سے مکمل تعاون ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ (پی آئی پی ایس) کے لئے ایک مشترکہ نصاب بنایا جائے اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے لوگوں کو وہاں پر کورسز کرائے جائیں۔
قومی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل طاہر حسین نے سپیکرز کانفرنس کے شرکاء کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ سیکرٹریز کانفرنس میں اس کانفرنس کو مستقل فورم بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سیکرٹری از کانفرنس میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ ہر چھ ماہ بعد سیکرٹریز کانفرنس کا انعقاد کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ تمام مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے ہوتا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس فورم سے پاکستان اور اس کے عوام کو فائدہ ہوگا۔ سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے ایوان بالا کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم اس لئے اکٹھے ہوئے ہیں کہ پارلیمان کو مضبوط اور قانون سازی کو موثر بنایا جائے۔ اس کانفرنس میں پارلیمان کی کارکردگی سمیت تمام ایشوز پر غور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دسمبر 22 سے خواتین کے حقوق کے حوالے سے تین روزہ سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹیاں بالخصوص پبلک اکاؤنٹس کمیٹی، شفافیت، حکومتی نگرانی اور بہتری میں کردار ادا کررہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہے۔
سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد آئینی طریقہ کار،قانون سازی کو بہتر کرنا ہے، ہماری کوشش ہونی جاہیے کہ اس کانفرنس کا انعقاد تسلسل کے ساتھ ہوتا رہے، 10 سال کانفرنس کا نہ ہونا اچھا پیغام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فورم میں قانون سازی، رولز، وزارتوں اور محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے، 18 ویں ترمیم کے بعد وزارتوں اور محکمے صوبوں کے پاس جانے کے بعد پیچیدگیوں کے حل کے لئے ٹھوس پالیسز پر بات کرنا ہوگی۔ انہوں نے تجویز دی کہ مشترکہ مفادات کونسل کی طرح سپیکرز کانفرنس کو بھی آئینی حیثیت دی جائے۔
آزاد کشمیر اسمبلی کے سپیکر چوہدری مجید اکبر نے کہا کہ 18 ویں سپیکرز کانفرنس سے خطاب میرے لئے باعث اعزاز ہے ۔اس فورم سے ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے، تجاویز کے تبادلے،پارلیمانی روایات،اسمبلی میں پیش ہونے والے امور کا حل ملے گا۔ انہوں نے کہاکہ مشترکہ مسائل کا مناسب حل مشاورت سے ہی ممکن ہے۔ ماضی میں پارلیمان نے درپیش مسائل کا کلیدی حل دیا کیا ہے۔انہوں نے آئندہ سپیکر ز کانفرنس مظفر آباد میں منعقد کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے کشمیری عوام کی جرات اور حوصلے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کی قربانیوں کے بعد عالمی برادری سمجھ رہی ہے کہ یہ پاکستان اور بھارت کا نہیں بلکہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ ہے،جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا ،خطے میں امن ممکن نہیں ہے ۔انہوں نے بھارتی حکومت کے 5 اگست 2019 کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے تحریک آزادی کو نہیں دبایا جا سکتا۔انہوں نے کہاکہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقو کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ عالمی برداری کے لئے لمحہ فکر ہونا چاہیے تھا لیکن عالمی برادری خاموش ہے۔
بلوچستان اسمبلی کے سپیکر کیپٹن (ر) عبدالخالق اچکزئی نے کہا کہ ہم سب کو اس چیز پر نظر رکھنی چاہیے کہ ملک کے اندر کیا ہورہا ہے اور مسائل کا حل کیسے نکالا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے اندر کچھ لوگوں کی طرف سے مسائل بنائے جارہے ہیں لیکن وہاں کے سکیورٹی ادارے اس بات پر متفق ہیں بلوچستان کو آگے لیکر چلنا ہے اور اس حوالے سے مسلسل کوشش جاری ہے. بلوچستان کی سرحد ایک طرف افغانستان تو دوسری طرف ایران کے ساتھ ملتی ہے،ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مل کر چلنا ہوگا ،یہ کامیابی کے لئے ناگزیر ہے۔
گلگت بلتستان اسمبلی کے سپیکر نذیر احمد نے کہا کہ اس کانفرنس سے پاکستان میں پارلیمانی بالادستی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی، اس کانفرنس سے وفاق پر وفاقی اکائیوں کااعتماد بڑھے گا۔ پارلیمانی پریکٹس، رولز، قانون سازی،پارلیمانی جمہوریت کی مضبوطی کے لئے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کا سیاسی اور جمہوری سفر بالکل مختلف ہے، 2002 میں گلگت بلتستان میں اسمبلی قائم ہوئی ہے، ہمیں باقی ملک کو ملنے والے حقوق تاخیر سے ملنا شروع ہوئے ہیں۔ صوبوں کی آئینی فورمز پر نمائندگی ہے لیکن آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں ، اس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوری نظام ہے، سب کو مل کر چلنا چاہیے۔اگر ہم اب بھی ترقی نہ کرسکے تو پھر کب ترقی کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ جمہوریت صرف الیکشن کا نام نہیں ، ہم نے اختلافات اور لڑائی جھگڑوں سے نکل کر جمہوری اقدار کو بچانا ہے۔
سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر خان سواتی نے کہا کہ وہ تمام جمہوری قوتیں قابل تحسین ہیں جنہوں نے مشکلات کے باوجود حوصلے نہیں چھوڑے۔ ایسی کوئی سیاسی پارٹی نہیں جس کی قیادت کو تشدد کا نشانہ نہ بنایا گیا ہوں یا جیلوں میں نہ گئی ہو اس کے باوجود ہم سب اکٹھے بیٹھے ہیں یہ جمہوریت کی مضبوطی کی واضح مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی قوتیں اور سیاسی ورکرز ہمیشہ سے آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ اب ہمیں عمل درآمد کی طرف جانا ہوگا اور جو چھوٹے چھوٹے اختلافات ہیں انھیں بالائے طاق رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔
سپیکر سندھ اسمبلی سید اویس قادر شاہ نے کہاکہ پارلیمنٹ صرف ایک عمارت نہیں ہے بلکہ اس کے اندر بیٹھے ہوئے قانون ساز اس کی اصل ہیں۔ قانون سازوں کو بہتر ٹیکنالوجیز سے روشناس کرایا جائے، سیمینارکا انعقاد کیا جائے، دیگر ممالک کے قانون سازوں کے ساتھ تعامل کو بڑھایا جائے، دوسرے ممالک میں قانون سازی کی نوعیت اور ان کے مستقبل کے منصوبوں کا جائزہ لیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہر چیز کا حل پارلیمنٹ کے اندر ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پارٹی کے چیئرمین نے مجھے سپیکر آفس سنبھالنے سے قبل تلقین کی کہ سب کو سننا ہے اور ہر نظریہ کی عزت کرنا ہے۔ سپیکر آفس غیر جانبدار اور ذمہ دار ہوتا ہے اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کا پابند ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ضرورت نوجوانوں کو بااختیار بنانا ہے، 2008میں جمہوریت بحال ہوئی اور آج 2024ہے، آج 2008میں پیدا ہونے والا بچہ 17سال کا ہوچکا ہے کیا ہم نے اس بچے کو درست سمت، مثبت سوچ اور آگے بڑھنے کی مواقع فراہم کئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن نے ہمارے نوجوانوں کومتاثر کیا ہے، یہ وقت ہے کہ تمام قانون ساز ادارے اس چیلنج سے نبردآزما ہونے کا حل پیش کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سندھ اسمبلی کو پیپر لس کرنے، مصنوعی ذہانت کے ذریعے قانون سازی کو موثر بنانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔