درجہ حرارت 4 ڈگری کم کرنے کا دعویٰ، پروفیسر اقبال نے سب کو حیران کر دیا
اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات پروفیسر اقبال نے کہا کہ پاکستان ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے جہاں انفراسٹرکچر کا تصور صرف معاشی ترقی تک محدود نہیں رہا بلکہ اب یہ عوامی صحت، ماحولیاتی تحفظ، اور قدرتی آفات سے تحفظ سے بھی جڑا ہوا ہے۔یہ تقریب ایشیائی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (AIIB) اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے اشتراک سے منعقد ہوئی، جس میں AIIB کی سالانہ رپورٹ “ایشیائی انفراسٹرکچر فنانس 2025: محفوظ صحت کے لیے انفراسٹرکچر” کا اجرا کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اب ہر شعبہ خواہ وہ صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ یا توانائی کا ہو ، موسمیاتی لحاظ سے محفوظ اور مربوط ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ حکومت “اُڑان پاکستان” منصوبے کے تحت صفر اخراج الیکٹرک بسوں، دریا کناروں اور ویٹ لینڈز کی بحالی، اور توانائی مؤثر و آفات سے محفوظ صحت مراکز کے قیام پر کام کر رہی ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف پائیدار ترقی کو فروغ دیں گے بلکہ عوامی صحت کے تحفظ میں بھی کلیدی کردار ادا کریں گے۔پروفیسر اقبال نے زور دے کر کہا کہ حکومت فوسل فیول پر انحصار کم کرنے کے لیے شمسی، ہوائی اور گرین ہائیڈروجن جیسے متبادل توانائی ذرائع میں سرمایہ کاری کر رہی ہے، اور شہروں میں درجہ حرارت کم کرنے کے لیے گرین بیلٹس، قابل جذب سڑکیں اور ماحولیاتی زوننگ جیسے حل اختیار کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ساحلی مینگرووز کی بحالی سے طوفانی نقصانات میں 30 سے 50 فیصد تک کمی آ رہی ہے اور مقامی ماہی گیروں کے روزگار میں بہتری آ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب ماضی کے مقابلے میں معیار، استحکام، اور صحت کو ترجیح دی جا رہی ہے، اور پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے جو موسمیاتی ہوشیاری اور انسانی فلاح پر مبنی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان اب کوئی بھی انفراسٹرکچر منصوبہ اُس وقت تک آگے نہیں بڑھاتی جب تک وہ موسمیاتی استحکام، عوامی صحت، اور ماحولیاتی تحفظ کو مدنظر نہ رکھتا ہو۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان قدرت پر مبنی حل اپنا رہا ہے، جیسے ساحلی علاقوں میں مینگرووز کی شجرکاری اور شہروں میں سبز پارکوں کا قیام، جو کہ سستے، موثر اور سب کے لیے مساوی فائدے والے اقدامات ہیں۔
پروفیسر اقبال نے AIIB کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں پیش کردہ ڈیٹا پاکستان کے زمینی حقائق کی عکاسی کرتا ہے۔ سیلاب اور ناقص واٹر سسٹمز کی وجہ سے بیماریاں بڑھ رہی ہیں، بارشوں کے غیر یقینی نظام سے غذائی قلت پیدا ہو رہی ہے، اور اس کے اثرات بچوں کی صحت اور ذہنی نشوونما پر بھی ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ مسائل محض نظریاتی پیش گوئیاں نہیں بلکہ پاکستان میں روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ سیلاب، شدید گرمی، سموگ، اور پانی کی قلت جیسے مسائل موسمیاتی بے عملی کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ حکومت ان مسائل کا حل تلاش کر رہی ہے اور قومی منصوبہ بندی کو سیاروی صحت کے اصولوں کے مطابق ہم آہنگ کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ شہری علاقوں میں درجہ حرارت میں 4 ڈگری سینٹی گریڈ تک کمی لانے والے اقدامات جیسے گرین بیلٹس، پانی جذب کرنے والی سڑکیں، اور موسمیاتی لحاظ سے حساس زوننگ قوانین بھی رائج کیے جا رہے ہیں، خاص طور پر جیکب آباد اور لاہور جیسے شہروں میں۔