پاکستان کا 2025 تک 1 ٹریلین ڈالر اور 2047 تک 3 ٹریلین ڈالر کی معیشت کا ہدف
اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن، پروفیسر احسن اقبال کی زیر صدارت مرکزی ترقیاتی ورکنگ پارٹی (CDWP) کا اہم اجلاس منعقد ہوا جو چھ گھنٹوں سے زائد جاری رہا۔ اجلاس میں دس ترقیاتی منصوبوں پر غور کیا گیا جن میں سے پانچ منصوبے، جن کی مجموعی لاگت 15.9 ارب روپے بنتی ہے، سی ڈی ڈبلیو پی کی سطح پر منظور کر لیے گئے۔ دیگر پانچ بڑے منصوبے، جن کی مجموعی لاگت تقریباً 127.1 ارب روپے ہے، حتمی منظوری کے لیے ایگزیکٹو کمیٹی آف نیشنل اکنامک کونسل (ECNEC) کو بھجوانے کی سفارش کی گئی۔
اجلاس میں سیکرٹری منصوبہ بندی اویس منظور سمرا، چیف اکانومسٹ، وائس چانسلر پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE)، پلاننگ کمیشن کے اراکین، وفاقی و صوبائی سیکرٹریز، اور متعلقہ وزارتوں و اداروں کے سینئر افسران نے شرکت کی۔ اجلاس کے ایجنڈے میں تعلیم و تربیت، ماحولیات، گورننس، اعلیٰ تعلیم، انفارمیشن ٹیکنالوجی، رہائشی منصوبہ بندی، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے خصوصی علاقے، اور ٹرانسپورٹ و مواصلات جیسے اہم شعبے شامل تھے۔
وفاقی وزیر احسن اقبال نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان ہر حال میں ترقی و خوشحالی کے سفر کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ صرف وہی منصوبے PSDP میں شامل کیے جائیں جو اداروں کی کارکردگی بہتر بنائیں اور قومی ترقی میں مؤثر کردار ادا کریں۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ منصوبہ بندی کا پورٹ فولیو “اُڑان پاکستان” کے اہداف سے ہم آہنگ ہونا چاہیے، تاکہ تسلسل قائم رکھا جا سکے اور نئے اقدامات کا آغاز بھی کیا جا سکے۔ احسن اقبال نے وزارت منصوبہ بندی کو ہدایت کی کہ سڑکوں اور عمارات کی تعمیر کے لیے مارکیٹ ریٹ کے مطابق تعمیراتی نرخ جاری کرنے کا باقاعدہ مکینزم تشکیل دیا جائے۔ مزید یہ کہ اسپانسرنگ ادارے منصوبوں کی لاگت کے تعین میں درستگی کو یقینی بنائیں تاکہ تخمینے مصنوعی طور پر نہ بڑھائے جائیں۔
وفاقی وزیر نے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور حکومتِ پنجاب کو ہدایت دی کہ لیپ ٹاپ کی خریداری کے لیے آئندہ چار سال کی مجموعی طلب کو یکجا کر کے بین الاقوامی مینوفیکچررز کو پاکستان میں پیداواری پلانٹس لگانے کی دعوت دی جائے، تاکہ مقامی سطح پر پیداوار ممکن ہو سکے۔
اجلاس میں تعلیم و تربیت کے شعبے سے متعلق نیشنل یونیورسٹی آف پاکستان اسلام آباد کے لیے تعلیمی بلاکس کی تعمیر کے منصوبے کو منظور کیا گیا جس کی لاگت 1.59 ارب روپے ہے۔ ماحولیات کے شعبے میں شہری سیلاب، خشک سالی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے قومی شہری حکمت عملی اور مکانی منصوبہ بندی کے لیے رہنما اصولوں کی تیاری کا منصوبہ منظور کیا گیا جس کی لاگت 10.64 کروڑ روپے ہے اور یہ منصوبہ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ہیبی ٹیٹ کی مکمل مالی معاونت سے مکمل کیا جائے گا۔
گورننس کے شعبے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کے “پاکستان ریزیز ریونیو پراجیکٹ” کو نظرثانی کے بعد ایکنک کو بھجوا دیا گیا، جس کی لاگت 40.75 ارب روپے ہے۔ یہ منصوبہ ایف بی آر کے بنیادی ڈھانچے کی جدید کاری، پرائیویٹ کلاؤڈ، سافٹ ویئر اپ گریڈ، اور فیلڈ دفاتر کی کنیکٹیویٹی بہتر بنانے سے متعلق ہے۔
اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں دو منصوبے پیش کیے گئے جن میں سے پہلا “پنجاب لیپ ٹاپ پروگرام” ہے جسے ایکنک کو بھجوا دیا گیا۔ یہ منصوبہ پنجاب حکومت کی جانب سے ADP فنڈنگ کے تحت 27 ارب روپے کی لاگت سے چلایا جا رہا ہے اور اکتوبر 2025 تک مکمل ہو گا۔ منصوبے کے تحت بی ایس، ایم ایس، ایم بی بی ایس اور انجینئرنگ پروگراموں کے تقریباً 1 لاکھ 12 ہزار طلبہ کو لیپ ٹاپ فراہم کیے جائیں گے۔
دوسرا منصوبہ “اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں آئی ٹی انڈسٹریل انوویشن اور ریسرچ سینٹر کے قیام” سے متعلق تھا، جسے سی ڈی ڈبلیو پی نے 2.45 ارب روپے کی لاگت سے منظور کر لیا۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں “ری ویمپنگ آئی ٹی انڈسٹری لینڈ اسکیپ” کے منصوبے کی منظوری دی گئی جس کی لاگت 7.42 ارب روپے ہے۔ یہ منصوبہ آئی ٹی ہنر کی ترقی، بزنس ایکو سسٹم کی بہتری اور بین الاقوامی برانڈنگ پر مشتمل ہے، جس کے تحت 20,950 نوجوانوں کو مختلف شعبہ جات میں تربیت دی جائے گی۔
رہائشی منصوبہ بندی کے تحت سندھ میں 2022 کے سیلاب سے متاثرہ اسکولوں کی تعمیر نو کے منصوبے کو ایکنک کو بھجوا دیا گیا۔ اس منصوبے کی لاگت 12.34 ارب روپے ہے اور اس میں متاثرہ اضلاع میں لڑکیوں اور مخلوط اسکولوں کو ترجیح دی جائے گی۔
آزاد جموں و کشمیر میں میر واعظ مولوی محمد فاروق شہید میڈیکل کالج اور کشمیر میڈیکل کالج مظفرآباد کے قیام کا منصوبہ بھی منظور کر لیا گیا جس کی لاگت 4.34 ارب روپے ہے۔
ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبے میں دو اہم منصوبے ایکنک کو بھیجے گئے۔ پہلا منصوبہ سندھ کوسٹل ہائی وے فیز ٹو کی 36 کلومیٹر توسیع و تعمیر کا ہے جس کی لاگت 37.72 ارب روپے ہے۔ یہ سڑک خاہوٹی سے کیٹی بندر تک جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ سمندر کے پانی سے متاثرہ 48,500 ایکڑ اراضی کو قابلِ کاشت بنانے کے لیے حفاظتی بند بھی بنایا جائے گا۔
دوسرا منصوبہ ٹنڈو الہ یار تا ٹنڈو آدم 31.4 کلومیٹر سڑک کی دو رویہ تعمیر کا ہے جس کی لاگت 9.28 ارب روپے ہے۔ اس میں پل، نکاسی آب، فٹ پاتھ، حفاظتی اقدامات اور روشنی سمیت دیگر ڈھانچے شامل ہیں۔