لبنان میں اسرائیل سے لڑنیوالی حزب اللہ کتنی طاقتور ہے؟
پورے 1 سال سے جاری جھڑپوں کے بعد لبنانی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان لڑائی شروع ہو گئی ہے جسکے باعث باقاعدہ جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کو خطے کی مضبوط ترین پیرا ملٹری فورس سمجھا جاتا ہے اسرائیل کو لبنان میں حزب اللہ کی صورت میں غزہ میں حماس کے مقابلے میں بہت طاقت ور حریف کا سامنا ہے۔ ۔حزب اللہ کے پاس جدید ہتھیار ہیں جس میں ہدف کو نشانہ بنانیوالے ڈرونز اور راکٹس بھی شامل ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے تمام حصوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔اسرائیل کیساتھ حالیہ مسلح جھڑپوں میں حزب اللہ نے بتدریج جدید گولہ باروداور نئے ہتھیار کا استعمال کیا ہے۔
حزب اللہ کتنی طاقت ور ہے؟
حالیہ تنازع میں حزب اللہ نے ابتدا میں ٹینک شکن میزائل اور راکٹ فائر کئے تھے تاہم بعد میں اس نے دھماکہ خیز مواد لیجانیوالے ڈرونز اور زمین سے فضا میں مار کرنیوالے میزائل بھی پہلی بار استعمال کئے ہیں۔سربراہ حزب اللہ حسن نصر اللہ کا کہنا ہے کہ یہ ڈرونز مقامی سطح پر تیار کئے گئے ہیں اور انکے پاس اسکی بڑی تعداد موجود ہے۔ اسرائیل کے اندازوں کے مطابق حزب اللہ کے پاس ڈیڑھ لاکھ میزائل اور راکٹ ہیں۔حزب اللہ کو پچھلے ہفتے اس وقت بڑا دھچکا لگا تھا جب لبنان میں ہزاروں کمیونی کیشن ڈیوائسز اچانک 1 ساتھ پھٹنے کے واقعات پیش آئے تھے۔ یہ دھماکے لبنان کے مختلف علاقوں میں ہوئے تھے جس میں 40 افراد ہلاک اور 3 ہزار سے زائد شہری زخمی ہو گئے تھے۔ حزب اللہ ان حملوں کیلئے اسرائیل کو ذمے دار قرار دیتی ہے۔حزب اللہ کے مسلح تنازعات کا ماضی دیکھا جائے تو اس نے 2006 میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والی جنگ میں اپنی بھرپور عسکری طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ حزب اللہ نے اسرائیل سے دو فوجیوں کو اغوا اور آٹھ کو قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کو جنم دیا جو پانچ ہفتوں تک جاری رہی تھی۔
اس تنازع کے دوران حزب اللہ نے اسرائیل کیطرف ہزاروں راکٹ داغے جس پر اسرائیل نے جوابی کارروائی کی۔اس لڑائی میں لبنان میں 12سو افراد جان سے گئے جبکہ 1سو58 اسرائیلی ہلاک ہوئے جس میں زیادہ تر فوجی تھے۔حزب اللہ کی عسکری طاقت اس وقت بڑھی جب اسکے جنگجوؤں کو شام میں تعینات کیا گیا۔ شام خطے میں ایران کا ایک اور اتحادی ہے اور حزب اللہ کی تعیناتی کا مقصد شامی صدر بشار الاسد کی باغیوں کے خلاف لڑائی میں مدد کرنا تھا، یہ باغی زیادہ تر سنی مسلمان ہیں۔ سید حسن نصر اللہ نے 2021 میں کہا تھا کہ تنظیم میں ایک لاکھ جنگجو ہیں۔
حزب اللہ گروپ کون ہے اور یہ کیسے بنا؟
ایران کیجانب سے حزب اللہ کو ہتھیار اور رقم دی جاتی ہے۔ امریکا کا اندازہ ہے کہ ایران نے حالیہ برسوں میں اپنے سالانہ کروڑوں ڈالر اس کیلئے مختص کئے ہیں۔حزب اللہ کا غزہ میں حماس اور 1 اور فلسطینی عسکری گروہ اسلامک جہاد سے گہرا تعلق ہے۔حزب اللہ کا دعویٰ ہے کہ وہ 7 اکتوبر کو “فلسطینی مزاحمت کی قیادت کیساتھ براہ راست رابطے” میں تھی۔ یہ وہی دن ہے جب حماس کے جنگجوؤں نے غزہ سے اسرائیل پر ایک غیر معمولی حملہ کیا تھا۔اس حملے کے بعد شروع ہونیوالی اسرائیل حماس جنگ میں اسرائیل میں 12سو افراد ہلاک ہوگئے تھے اور 2سو50 شہریوں کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کی غزہ پر جوابی بمباری میں اکتالیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں
جن میں نصف سے زائد بچے اور خواتین شامل ہیں جب کہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس تعداد میں عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔7 اکتوبر کے بعد سے حزب اللہ اور اسرائیل میں سرحد پار سے کئی مرتبہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ حماس اور اسلامک جہاد جو لبنان میں موجود ہیں، انھوں نے بھی پہلی مرتبہ لبنان سے اسرائیل پر حملہ کیا ہے۔ ان حملوں میں دس اکتوبر کو اسلامک جہاد کیجانب سے سرحد پار سے اسرائیل میں دراندازی بھی شامل ہے۔
حزب اللہ مشرقِ وسطیٰ میں دیگر ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کیلئے حمایت اور تحریک کا ذریعہ رہی ہے۔ اس نے عراق میں مسلح گروہوں کو تربیت دی اور وہاں لڑائی میں بھی حصہ لیا۔سعودی عرب کا کہنا ہے حزب اللہ یمن میں ایران کے اتحادی حوثیوں کی حمایت میں بھی لڑی ہے۔ البتہ حزب اللہ اس کی تردید کرتی ہے۔