سپریم کورٹ میں ججز تبادلہ کیس، سینئرٹی پر بڑا سوال، کیا عدلیہ تقسیم ہونے جا رہی ہے؟
اسلام آباد ۔۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس کی سماعت جمعرات 19جون تک ملتوی کردی ۔اسلام آباد ہائی کورٹ ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیخلاف درخواستوں پر سماعت بدھ کو جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ نے کی۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور بانی پی ٹی آئی کے وکیل ادریس اشرف عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر عدالت نے بانی پی ٹی آئی کے وکیل کو دلائل دینے سے روک دیا اور ہدایت کی کہ پہلے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز دلائل دیں۔ عدالت نے کہا کہ ممکن ہے ان کے دلائل پر جواب الجواب دینا پڑے،
اس لیے مناسب ہو گا کہ بانی پی ٹی آئی کے وکیل بعد میں بات کریں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اپنے دلائل میں ججز ٹرانسفر و سینارٹی بارے تاریخی اور آئینی پس منظر بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ 1955 میں گورنر جنرل کے ایک آرڈر کے ذریعے مغربی پاکستان کو ون یونٹ بنایا گیا اور تمام ہائیکورٹس کو یکجا کر کے ایک عدالت قائم کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ججز کی گزشتہ سروس کو برقرار رکھا گیا اور سنیارٹی تقرری کی تاریخ کے مطابق ترتیب دی گئی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ 1970 میں ون یونٹ تحلیل ہوا تو ججز کو مختلف ہائیکورٹس میں ٹرانسفر کیا گیا اور اس موقع پر بھی ان کی سابقہ سروس تسلیم کی گئی۔ اسی طرح 1976 میں سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹس کو الگ کیا گیا تو وہاں بھی ججز کے تبادلے کے وقت ان کی سنیارٹی برقرار رکھی گئی۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ کیس کی صورتحال مختلف ہے کیونکہ نہ کوئی نئی عدالتی تشکیل ہوئی ہے نہ ہی کوئی ہائیکورٹ تحلیل ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے پر ایسی کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی، لہذا ماضی کی مثالوں کا اطلاق موجودہ صورتحال پر سیدھا ممکن نہیں۔ امجد پرویز نے اس پر موقف دیا کہ ان کا نکتہ یہی ہے کہ ماضی میں جب بھی ججز کا تبادلہ ہوا
ان کی گزشتہ سروس کو تسلیم کیا گیا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے دلائل دیتے ہوئے پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کیلئے اسپیشل کورٹ تشکیل دی گئی تھی، جس کے لیے پانچ ہائیکورٹس کے ججز میں سے تین کو چنا گیا اور سینئر ترین جج کو عدالت کا سربراہ بنایا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ججز کی سنیارٹی ہمیشہ مقدم رکھی گئی۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے وضاحت طلب کی کہ آرٹیکل 200 کے تحت جج کا تبادلہ مستقل ہوگا یا عارضی؟ اٹارنی جنرل نے خود کہا کہ تبادلہ مستقل ہے، لہذا اس پر مزید وضاحت درکار ہے۔ امجد پرویز نے کہا کہ وہ اس نکتے پر بھی دلائل دیں گے کہ تبادلہ کی مدت کیا ہوتی ہے اور آئین کے مطابق صدر مملکت کو کہاں اختیار حاصل ہوتا ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال اٹھایا کہ جب سنیارٹی کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں تو 14 ججز کو چھوڑ کر 15ویں نمبر پر موجود جج کو کیوں ٹرانسفر کیا گیا؟ اس پر امجد پرویز نے کہا کہ اس سمری پر کوئی عام آدمی نہیں بلکہ خود ججز نے رائے دی ہے اور وہ آئین و قانون سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔
جسٹس شکیل احمد نے “Such Period” اور “During the Period” کی اصطلاحات پر فرق جاننے کی کوشش کی۔ امجد پرویز نے وضاحت کی کہ “Such Period” سے مراد مخصوص مدت ہوتی ہے جبکہ “During the Period” کا مطلب ہے کہ تبادلہ مستقل ہے۔ اس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ شکر ہے آپ نے یہ نہیں کہہ دیا کہ During the Period سے مراد انتقال تک تبادلہ ہے۔ جسٹس شکیل احمد نے نشاندہی کی کہ تبادلے کی سمری میں کہیں بھی عوامی مفاد کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس پر امجد پرویز نے جواب دیا کہ آرٹیکل 200 میں بھی پبلک انٹرسٹ کا لفظ شامل نہیں ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے دلائل مکمل ہونے کے بعد بانی پی ٹی آئی کے وکیل ادریس اشرف نے دلائل کا آغاز کیا۔ سماعت کے اختتام پر عدالت نے دریافت کیا کہ مزید کتنا وقت درکار ہوگا۔ ادریس اشرف نے کہا کہ انہیں 15 منٹ درکار ہوں گے، جبکہ اٹارنی جنرل نے بھی اتنے ہی وقت کی ضرورت بتائی۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے یہاں پر ذوالفقار علی بھٹو کیس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں بھی ججز وکلا سے کہتے رہے کہ دلائل مختصر کریں لیکن وکلا کی طوالت کے باعث کیس تاخیر کا شکار ہوتا رہا حتی کہ ججز ریٹائر ہوتے گئے اور بینچ کی کمپوزیشن ہی بدل گئی۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعرات 19جون تک ملتوی کر دی۔ ادریس اشرف جمعرات کو اپنے دلائل جاری رکھیں گے جس کے بعد اٹارنی جنرل اپنے دلائل مکمل کریں گے۔