بلوچستان کابینہ میں پشتون اراکین کو نظرانداز کرنے پر تحفظات شدت اختیار کرگئے
بلوچستان کابینہ میں پشتون قومیت سے تعلق رکھنے والے منتخب اراکین اسمبلی کو نظر انداز کیے جانے اور غیر منتخب مشیروں کو اہم محکمے و ترقیاتی فنڈز دیے جانے پر حکومتی صفوں میں اختلافات شدت اختیار کرنے لگے ہیں۔
ذرائع کے مطابق 20 رکنی کابینہ میں صرف دو وزراء پشتون قوم سے تعلق رکھتے ہیں، جب کہ پانچ مشیروں میں سے تین مشیر غیر منتخب افراد ہیں۔ اس کے علاوہ کسی ایک بھی مشیر کا تعلق پشتون برادری یا ہزارہ قوم سے نہیں ہے، جس پر اراکین اسمبلی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اراکین کا کہنا ہے کہ ترقیاتی فنڈز کا بڑا حصہ غیر منتخب افراد کو نوازنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے جب کہ پشتون اکثریتی اضلاع کو رواں مالی سال میں پہلے سے کم بجٹ جاری کیا گیا ہے۔ اس صورتحال پر نہ صرف پشتون اراکین اسمبلی تشویش کا شکار ہیں بلکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے منتخب نمائندے بھی مسلسل نظراندازی اور دیوار سے لگانے کے رویے کی شکایت کر رہے ہیں۔
اراکین کا الزام ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جان بوجھ کر پشتون اضلاع، اراکین اور دیگر اقوام کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ شہر میں اربوں روپے صرف ایئرپورٹ روڈ کو خوبصورت بنانے پر خرچ کیے جا رہے ہیں، جب کہ اطراف کی گلیاں، نالیاں، اسکول اور بنیادی سہولیات بدترین حالت میں ہیں۔
بعض اراکین کا کہنا تھا کہ اگر غیر منتخب افراد کو فنڈز دینے کا سلسلہ بند نہ کیا گیا اور پشتون نمائندوں سے مشاورت نہ کی گئی تو وہ بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ کریں گے، جس سے حکومت کو سنگین پارلیمانی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق پشتون اراکین اسمبلی نے پارٹی قیادتوں اور اعلیٰ حکام سے رابطے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ اپنے تحفظات براہ راست پہنچا سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعلیٰ نے رویہ درست نہ کیا تو مشترکہ طور پر سخت فیصلے کیے جائیں گے۔
قبل ازیں، جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا نوراللہ اور پیپلز پارٹی کے اسفندیار کاکڑ بھی ترقیاتی فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں، تاہم ان کے بیانات کے بعد بھی صورت حال میں بہتری نہیں آ سکی۔
اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ صوبے کی آدھی آبادی پر مشتمل پشتون قوم کو کابینہ، مشاورت اور فنڈز میں نظرانداز کرنا آئندہ نسلی و سیاسی کشیدگی کو جنم دے سکتا ہے، جس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔