آنے والے سالوں میں پاکستان ایران تجارت کو 10 بلین ڈالر تک بڑھانے کا عزم
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف، جو ایران کے سرکاری دورے پر جانے والے ہیں، نے دونوں ممالک کے تعلقات کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں جانب سے ہر مشکل اور آسان حالات میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہنے کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔
شہباز شریف نے یہ باتیں ایرنا کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہیں جو ان کے پیر کے روز تہران کے دورے سے قبل لیا گیا تھا۔ انہوں نے ایران اور امریکہ کے درمیان جاری غیر مستقیم جوہری مذاکرات پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ مذاکرات مثبت نتائج دیں گے۔
وزیر اعظم کا مکمل انٹرویو کچھ یوں ہے:”میرے بہترین یادوں میں سے ایک مرحوم صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات ہے، جو ایک المناک ہوائی حادثے میں شہید ہو گئے۔ پاکستان ان کا آخری دورہ تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے۔وہ ایک بہت متاثر کن، سوچنے والے اور دور اندیش رہنما تھے۔ میں نے ان کے ساتھ بہترین رابطہ قائم کیا تھا۔ ہم نے مل کر فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات کو اعلیٰ سطح تک پہنچایا جائے اور مختلف شعبوں میں ان کی بنیاد کو وسیع کیا جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ یہ کامیابی سے ممکن ہو پایا ہے۔ آج ہمارے تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔
میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی دعوت پر دوبارہ ایران جا رہا ہوں۔ ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد میں نے کئی ملاقاتیں اور فون کالز کی ہیں۔میرے دورے کا اہم مقصد ایران کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ انہوں نے بھارت کے ساتھ ہمارے تنازع میں ہمارا ساتھ دیا۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں، بھارت نے ہمارے خلاف جنگ مسلط کی تھی جس کا ہم نے بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق سوچ سمجھ کر اور مؤثر جواب دیا۔
میں ایرانی قیادت کا ان کی حمایت اور ثالثی کی پیشکش کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جسے ہم نے قبول کیا مگر بھارت نے مسترد کر دیا۔ اس موقع پر میں دو طرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر بھی بات چیت کروں گا۔
مجھے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کی سفارتی مہارت سے بہت متاثر ہوں۔ اس پیچیدہ جیو پولیٹیکل دور میں انہوں نے چیلنجز کو انتہائی حکمت عملی سے سنبھالا ہے۔
پاکستان نے اسرائیل کے غاصبانہ اور تباہ کن حملے کے خلاف ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسلام آباد اور تہران مسلم امہ کے مسائل اور علاقائی تعاون میں ایک دوسرے کی مدد جاری رکھیں گے۔
میری مضبوط یقین ہے کہ ایران اور پاکستان کی اقتصادی تقدیر آپس میں جڑی ہوئی ہے۔
ہمارے درمیان تقریباً 900 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ بلوچستان اور ایران کے سیستان و بلوچستان کے درمیان مضبوط اقتصادی روابط پورے خطے کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں اور دہشت گردی کے خاتمے میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہم نے دونوں صوبوں کے درمیان متعدد منصوبوں کے لیے تفاهمی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ انتہائی اہم ہے اور ضرورت ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعلقات دیرپا اور مستحکم ہوں۔
ہمارا موجودہ تجارتی حجم تقریباً 3 ارب ڈالر ہے جو گزشتہ تین چار سالوں میں کافی بڑھا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسے چند برسوں میں 10 ارب ڈالر تک لے جائیں، تاہم امکانات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
ہم فری ٹریڈ ایگریمنٹ (FTA) پر بات چیت کر رہے ہیں۔ اگلے دس سالوں میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں زبردست اضافہ ہوگا۔ ضرورت ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان طویل مدتی اقتصادی روابط کو فروغ دیا جائے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مذاکرات، سفارتکاری اور رابطے بہترین حل ہیں کیونکہ اس طرح ہم تنازعات اور جنگوں سے بچ سکتے ہیں۔
خطے میں امن، ترقی اور سلامتی کو فروغ دینا ضروری ہے۔ مجھے ایران کی قیادت پر بھرپور اعتماد ہے اور مجھے امید ہے کہ مذاکرات سے مثبت نتائج نکلیں گے۔
پاکستان کی طرف سے میں خطے میں امن و استحکام کی دعا کرتا ہوں۔
جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، ہم ایران کی ثالثی کی پیشکش کے شکر گزار ہیں، جو خطے میں امن اور استحکام کے فروغ کے لیے ایران کی صداقت اور حکمت کا مظہر ہے۔ ہم صدر پزشکیان اور وزیر خارجہ عراقچی کے ان کوششوں کے بھی مشکور ہیں جن سے جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ ایران امن اور استحکام کو ترجیح دیتا ہے اور جنگ سے گریز کرنا چاہتا ہے جو لوگوں اور خطے کو ناقابل تصور نقصان پہنچا سکتی ہے۔
میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ جب تک کشمیر اور فلسطین کے تنازعات کا حل نہیں نکلتا، خطے میں امن اور انصاف قائم نہیں ہو سکتا۔ ان مسائل کا حل ان کے عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا نہایت ضروری ہے۔”