پاکستانی گرڈ سسٹم کی قسمت بدلنے والی عالمی پیشکش، وارٹسلا کا بڑا پلان
وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری سے بین الاقوامی توانائی کمپنی وارٹسلا (Wärtsilä) کے وفد نے ملاقات کی۔ وفد کی قیادت وارٹسلا کے انرجی بزنس ڈائریکٹر، الیگزینڈر آئیکرمن (Alexander Eykerman) کر رہے تھے۔
ملاقات میں پاکستان کے توانائی کے شعبے کو درپیش موجودہ اور مستقبل کے چیلنجز، گرڈ کے استحکام اور قابل تجدید ذرائع سے پیدا ہونے والے توازن سے متعلق امور پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔
وفاقی وزیر نے وفد کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان توانائی کے شعبے میں ایک اہم دوراہے پر کھڑا ہے، جہاں پرانی پالیسیوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دنیا کے کئی ممالک پہلے ہی قابلِ تجدید توانائی کے باعث پیدا ہونے والے انٹرمیٹنسی جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں اور پاکستان بھی انہی چیلنجز کی سامنا کر سکتا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر وارٹسلا جیسی بین الاقوامی کمپنیاں ہماری منصوبہ بندی میں شراکت دار بنیں تو ہم نہ صرف اپنے اثاثوں کو مؤثر انداز میں استعمال کر سکتے ہیں بلکہ گرڈ کے استحکام کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ ہمیں موجودہ پاور پلانٹس کو صرف بجلی پیدا کرنے کے روایتی ماڈل میں دیکھنے کے بجائے، انہیں توازن پیدا کرنے والے ماڈل کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
وزیر توانائی نے اس بات پر زور دیا کہ بیٹری اسٹوریج اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز پر غور کیا جانا چاہیے تاکہ قابل تجدید ذرائع کی مکمل استعداد بروئے کار لائی جا سکے۔ انہوں نے وارٹسلا کے وفد سے کہا کہ مکمل اسٹڈی کا ابتدائی مسودہ، اس کا دائرہ کار، اہم نکات اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی تفصیلات فراہم کی جائیں تاکہ تمام متعلقہ اداروں کی شمولیت سے ایک مربوط حکمت عملی مرتب کی جا سکے۔
الیگزینڈر آئیکرمن نے گفتگو کے دوران کہا کہ توانائی کی عالمی صنعت میں بہت تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ پاکستان اگر اپنے موجودہ پاور پلانٹس کو بیلنسنگ رول میں تبدیل کرے تو بغیر کسی بڑی سرمایہ کاری کے قابلِ تجدید ذرائع کے مسائل کا مؤثر حل نکالا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج دنیا ہائیڈروجن، سولر اور ونڈ پر منتقل ہو چکی ہے۔ قابل تجدید ذرائع کے ساتھ بجلی کی پیداوار میں تسلسل کا مسئلہ ہے، جسے حل کرنے کے لیے ایسے پلانٹس یا ٹیکنالوجیز کی ضرورت ہے جو فوری ردعمل دے سکیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلے سے موجود کئی اثاثے اگر درست ماڈل کے تحت استعمال کیے جائیں تو کسی بڑے سرمائے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ صرف پاور پرچیز ایگریمنٹس کو بیس لوڈ سے بیلنسنگ ماڈل پر منتقل کرنا ہوگا، کیونکہ ان کی بنیادی لاگت پہلے ہی پوری ہو چکی ہے۔
ملاقات کے اختتام پر وفاقی وزیر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وزارت توانائی تمام ایسی تجاویز کا خیرمقدم کرے گی جو نظام کو مستحکم، پائیدار اور مستقبل کے مطابق بنانے میں معاون ہوں۔