اختر مینگل ضد چھوڑیں، عوام اذیت میں ہیں،راحیلہ حمید درانی کی اپیل

اختر مینگل ضد چھوڑیں، عوام اذیت میں ہیں،راحیلہ حمید درانی کی اپیل

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کی رکن راحیلہ حمید درانی نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے ایک پارلیمانی وفد سردار اختر مینگل سے بات چیت کے لیے گیا تھا تاکہ جاری دھرنے کے باعث عوام کو درپیش مشکلات کا حل نکالا جا سکے، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سردار اختر نے تعاون کی بجائے ضد کا مظاہرہ کیا۔
راحیلہ درانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “سردار اخترمینگل نے بات چیت کا آغاز ہی اس سوال سے کیا کہ آپ کو کس نے بھیجا ہے؟” ہم خواتین پارلیمنٹرین عوام کی مشکلات کے حل کے لیے خلوص نیت کے ساتھ ان کے پاس گئے تھے، لیکن انہوں نے مطالبات تسلیم ہونے تک دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ وفد نے سردار اختر مینگل کو بتایا کہ ان کے بعض مطالبات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، اس لیے حکومت یکطرفہ طور پر فیصلہ نہیں کر سکتی۔ راحیلہ درانی کا کہنا تھا کہ اختر مینگل کے پاس نہ تو کوئی میرٹ ہے اور نہ ہی وہ عوامی مسائل کے حل میں سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔راحیلہ درانی نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ دھرنے کے باعث صوبائی دارالحکومت کو ملک کے دیگر حصوں سے کاٹ دیا گیا ہے،

جس کی وجہ سے مسافروں، مریضوں اور عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔انہوں نے اپیل کی کہ سیاست میں ضد کی نہیں، عقل و شعور اور عوامی مفاد کی ضرورت ہے۔کوئٹہ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی اراکین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے سردار اختر مینگل پر سخت تنقید کی اور ان کے حالیہ بیانات کو “احساس فراموشی” سے تعبیر کیا۔مسلم لیگ ن کے رہنما سلیم کھوسہ نے کہا کہ قائد نواز شریف نے ہمیشہ سردار اختر مینگل کو عزت دی،

یہاں تک کہ وزارت اعلیٰ کے حصول کے لیے وہ نواز شریف کی گاڑی تک چلے تھے۔ انہوں نے اختر مینگل کو “دوغلا” اور “احساس فراموش” قرار دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ وہ دہشتگردی کے سہولت کاروں کے خلاف تو آواز اٹھاتے ہیں، مگر مزدوروں کے قتل پر کیوں خاموش ہیں؟سلیم کھوسہ نے مزید کہا کہ اختر مینگل آئین کا سہارا لے کر اپنے دھرنے کو قانونی رنگ دے رہے ہیں، جبکہ ان کی ضد کی وجہ سے حکومتی مذاکراتی عمل ناکام ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ضد پر مطالبات تسلیم نہیں کرے گی اور اختر مینگل نے دھرنے کے ذریعے عام شہریوں کو اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔
اس موقع پر رکن اسمبلی راحلیہ درانی نے کہا کہ خواتین پارلیمنٹرین پر مشتمل وفد صرف عوام کی مشکلات کے حل کے لیے گیا تھا، مگر سردار اختر مینگل نے بات چیت سے انکار کرتے ہوئے وفد سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ “آپ کو کس نے بھیجا ہے؟”انہوں نے کہا کہ اختر مینگل کے بیشتر مطالبات پہلے ہی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، مگر انہوں نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔پریس کانفرنس میں یہ تاثر بھی دیا گیا کہ نفرت کی سیاست کا دور ختم ہو چکا ہے، اور بی این پی کو قدوس بزنجو حکومت میں شامل ہونے اور اس کی کارکردگی کا حساب دینا ہوگا۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں