بارکھان میں مسافر بس پر حملہ، 7 افراد قتل،مسافر وں کی کہانی انکی زبانی

بارکھان میں مسافر بس پر حملہ، سات افراد قتل،مسافر کی درد ناک کہانی

بارکھان میں مسافر بس پر حملہ، سات افراد قتل،مسافر کی درد ناک کہانی

بلوچستان کے ضلع بارکھان میں نامعلوم مسلح افراد نے مسافر بس پر حملہ کر کے سات افراد کو ہلاک کر دیا۔ واقعہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب رڑکن کے علاقے میں پیش آیا، جب کوئٹہ سے پنجاب جانے والی بس کو روک کر مسافروں کو شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد نشانہ بنایا گیا۔

آنکھوں کے سامنے بھائی کی جان لے لی گئی

ہلاک ہونے والوں میں شامل عدنان مصطفیٰ کے بھائی، ذیشان مصطفیٰ نے بتایا کہ وہ دونوں بس میں پنجاب کے شہر بورے والا جا رہے تھے۔ ذیشان کے مطابق، مسلح افراد نے تمام مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کیے، اور جب عدنان سے شناختی کارڈ مانگا گیا تو اس کے پاس نہیں تھا۔ مسلح افراد نے اسے نیچے اتارا اور پھر فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔

ذیشان نے بتایا: “ان دہشت گردوں نے کلاشنکوف اٹھا رکھی تھیں، ٹوپیاں اور جیکٹیں پہنی ہوئی تھیں اور وہ تعداد میں 10 سے 12 تھے۔”

ہلاک شدگان کی شناخت

ڈپٹی کمشنر بارکھان، وقار خورشید کے مطابق، بس کوئٹہ سے پنجاب جا رہی تھی اور حملہ آوروں نے شناخت کے بعد سات افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کیا۔ ہلاک ہونے والوں میں عاشق حسین، عاصم علی، عدنان مصطفیٰ، محمد عاشق، محمد اجمل، صفیان اور شوکت علی شامل ہیں۔ ان میں سے بعض کا تعلق لاہور، بورے والا، شیخوپورہ اور فیصل آباد سے تھا۔

حملہ کیوں کیا گیا؟

بس میں موجود ایک خاتون مسافر نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ حملہ آوروں نے شناخت کے بعد مخصوص افراد کو چن چن کر نشانہ بنایا۔ ذیشان مصطفیٰ نے دعویٰ کیا کہ “حملہ آوروں نے صرف ان افراد کو قتل کیا جو پنجابی تھے۔”

واقعے کی تفصیلات

لیویز فورس کے اہلکاروں کے مطابق، حملہ آوروں نے رات ساڑھے دس بجے کے قریب بس کو روک کر پندرہ منٹ تک مسافروں کو یرغمال بنایا اور سات افراد کو ہلاک کرنے کے بعد پہاڑوں کی طرف فرار ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد بلوچستان اور پنجاب کے درمیان قومی شاہراہ کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا، تاہم بعد میں ٹریفک بحال کر دی گئی۔

حکومت کا ردعمل

وزیر اعلیٰ بلوچستان، میر سرفراز بگٹی نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا: “نہتے لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔”

تاحال کسی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم حکام اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں

Author

اپنا تبصرہ لکھیں