پانچ دہائیوں تک سزائے موت کا انتظار کرنے والا قیدی جسے عدالت نے بری کر دیا

پانچ دہائیوں تک سزائے موت کا انتظار کرنے والا قیدی جسے عدالت نے بری کر دیا

ہاکاماتا ایک پروفیشنل باکسر تھے جو 1961 میں ریٹائر ہونے کے بعد وسطی جاپان کے شہر شِیزُوکا میں سوئے بین کے پلانٹ میں ملازمت کرنے چلے گئے۔ (فوٹو؛ ہائیڈکو ہاکاماتا)
ہاکاماتا ایک پروفیشنل باکسر تھے جو 1961 میں ریٹائر ہونے کے بعد وسطی جاپان کے شہر شِیزُوکا میں سوئے بین کے پلانٹ میں ملازمت کرنے چلے گئے۔ (فوٹو؛ ہائیڈکو ہاکاماتا)

جاپان میں حیران کن واقعہ پیش آیا ہے جہاں5 دہائیوں سے سزائے موت کے منتظر ملزم کو عدالت نےآزاد کر دیا۔امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق دنیا میں سب سے لمبے عرصے تک سزائے موت کا انتظار کرنیوالے ایواو ہاکاماتا کو عدالت نے بے قصور قرار دیدیا۔جاپانی عدالت نے جمعرات کو 1968 میں فیملی کو قتل کرنیکے جھوٹے الزام میں سزائے موت پانیوالے (88) سال کے ہاکاماتا کو بری کر دیا۔مقامی براڈکاسٹر کے مطابق ضلع شِیزُوکا کی عدالت کی جج کونِی شونیشی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جن خون آلود کپڑوں کے ذریعے ایواو ہاکاماتا کو قتل کے کیس میں پھنسایا گیا تھا، وہ سب پلانٹڈ کارروائی تھی۔

جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’خود آلود کپڑوں کو تفتیشی حکام نے واقعے کے بعد اپنے قبضے میں لیا اور ٹینک میں چھپا دیا۔انھوں نے مزید کہا کہ مسٹر ہاکاماتا کو اس بنا پر مجرم نہیں قرار دیا جا سکتا۔ہاکاماتا ایک پروفیشنل باکسر تھے جو 1961 میں ریٹائر ہونے کے بعد وسطی جاپان کے شہر شِیزُوکا میں سوئے بین کے پلانٹ میں ملازمت کرنے چلے گئے۔جب ہاکاماتا کے باس، باس کی اہلیہ اور اُنکے دو بچوں کو پانچ سال بعد اُن ہی گھر میں چھریوں کے وار سے قتل کیا گیا تو پولیس نے شک کی بنیاد پر ہاکاماتا کو گرفتار کر لیا۔کئی دنوں کی بے رحم تفتیش کے بعد ہاکاماتا نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی تصدیق کی

تاہم بعد میں انہوں نے کیس دائر کیا کہ پولیس نے اس پر تشدد کر کے اور دھمکیاں دے کر اعتراف جرم کروایا تھا۔
انھیں 3 میں سے دو ججوں نے سزائے موت سنا دی تاہم ایک جج نے بار سے اس وجہ سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا کہ وہ ہاکاماتا کو سزائے موت سے نہ بچا سکے۔
ہاکاماتا پانچ دہائیوں تک سزائے موت کا انتظار کرتے رہے تاہم کپڑوں پر لگے ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ ثابت ہوا کہ قتل کا تعلق ہاکاماتا سے نہیں ہے۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں