ہر سال 15 ستمبر کو دنیا بھر میں بین الاقوامی یومِ جمہوریت منایا جاتا ہے، جو جمہوری اقدار اور اصولوں کو عالمی سطح پر برقرار رکھنے کی اہمیت کا یاد دہانی ہے۔ یہ دن جمہوریت کی صحت پر غور کرنے، شہری شرکت اور اظہار رائے کی آزادی کی حوصلہ افزائی کے لیے ہے۔ پاکستان میں، یہ دن خاص اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ ملک جمہوریت کی کئی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے، بشمول انتخابی شفافیت، کم ووٹر ٹرن آؤٹ، اور غیر منتخب اداروں کی بڑھتی ہوئی مداخلت۔
عالمی سطح پر جمہوریت کا جشن
بین الاقوامی سطح پر، یومِ جمہوریت عام طور پر مباحثوں، سیمینارز، اور اقدامات کے ذریعے منایا جاتا ہے تاکہ مضبوط جمہوری اداروں کی ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔ ایسے ممالک جہاں جمہوری نظام مستحکم ہیں، وہ اپنے انتخابی عمل، شمولیت، اور شہری آزادیوں کی حفاظت میں کامیابیوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ دن یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ جمہوریت صرف انتخابات کے انعقاد کا نام نہیں بلکہ ہر سطح پر احتساب، شفافیت، اور شرکت کو یقینی بنانا بھی ہے۔
پاکستان کی جمہوری مشکلات
جمہوریت کے حوالے سے پاکستان کی حقیقت کچھ زیادہ پیچیدہ ہے۔ ملک، جو ایک طویل عرصے سے پارلیمانی نظام کا حامل ہے، انتخابی عمل میں بار بار رکاوٹوں کا سامنا کرتا رہا ہے۔
کم ووٹر ٹرن آؤٹ اور انتخابی چالاکیوں کے الزامات ایک بار پھر مسائل کا سبب بنے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے منتخب حکومتوں کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے ہیں۔
غیر منتخب اداروں کی مداخلت
پاکستان میں، جمہوریت اکثر غیر منتخب اداروں کی مداخلت سے متاثر ہوتی رہی ہے۔ ملٹری کی مداخلت ہمیشہ ایک حساس موضوع رہی ہے، اور انتخابی نتائج اور حکومت سازی میں مداخلت کے الزامات آئے ہیں۔ تاریخ میں، ملٹری کی مداخلت نے پاکستان کی جمہوری راہ میں رکاوٹیں ڈالیں، جس نے عوام کو ان کے ووٹ کی اصل آزادی پر سوالیہ نشان چھوڑا۔
2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (PTI) کی کامیابی نے عوامی انتخاب کی فتح کے طور پر دیکھا گیا۔ تاہم، اپوزیشن اس کے خلاف تھی. انھوں کے اس فتح کو ملٹری کا کارنامہ کہا. حالیہ سیاسی واقعات، بشمول اس کی حکومت کا عدم اعتماد کی ووٹنگ کے ذریعے اخراج، نے ایک بار پھر سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا پاکستان میں جمہوری عمل حقیقتاً عوام کی خواہشات کی عکاسی کرتا ہے۔
انتخابات 2023 میں جو کچھ ہوا وہ صرف پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی گرفتاری اور پارلیمنٹ کی عمارت سے زبردستی نکالنے جیسے اقدامات ن نہیں . بلکہ اس بات کو بھی اجاگر کیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی منظرنامے میں غیر منتخب اداروں کی کتنی مداخلت ہے .
کم ووٹر ٹرن آؤٹ: عدم اعتماد کی علامت
پاکستان کی جمہوریت کا ایک اور سنگین مسئلہ کم ووٹر ٹرن آؤٹ ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ صرف 51% تھا. 2023 میں یہ48% ہے- یہ ریکاڑد جمہوری تبدیلیوں کے ساتھ آنے والے جوش و خروش کے برعکس ہے۔ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیوں اتنے زیادہ اہل ووٹر ووٹنگ اسٹیشنوں سے دور رہتے ہیں؟
بہت سے لوگ مانتے ہیں کہ یہ غیر حوصلہ افزائی نظام پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے ہے۔ بار بار کے ووٹ چوری، انتخابی دھاندلی، اور زبردستی کے الزامات نے عوام کو مایوس کیا ہے۔ جب شہریوں کو یقین نہیں ہوتا کہ ان کے ووٹ کا وزن حکومت سازی میں ہے، تو وہ جمہوری عمل میں کم دلچسپی لیتے ہیں۔
مزید برآں، غیر برطرف کردہ شکایات اور احساس عدم برابری، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، اس احساس کو بڑھاتے ہیں کہ ان کی آواز بڑی تصویر میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔
2023 کے انتخابات اور فارم 47 کی اسکینڈل
2023 کے عام انتخابات، پاکستان کی جمہوری عمل میں ایک اور نقطہ عطف بن گئے۔ انتخابی نتائج میں چھیڑ چھاڑ اور دھاندلی کی الزامات دوبارہ سامنے آئے، اور فارم 47 اسکینڈل کے مرکز میں تھا۔ فارم 47 ایک سرکاری دستاویز ہے جو پولنگ اسٹیشنوں پر انتخابی نتائج کو مرتب اور تصدیق کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ تاہم، 2023 کے انتخابات کے دوران، بہت ساری رپورٹس سامنے آئیں کہ ابتدائی پولنگ اسٹیشن کے نتائج اور انتخابات کمیشن پاکستان کو جمع کرائے گئے حتمی نتائج میں فرق تھا۔
پہلی بار رپورٹ کیے گئے اعداد و شمار کے مقابلے میں، اگلے دن مختلف نمبروں کی اشاعت نے نتائج کو راتوں رات تبدیل کرنے کے الزامات کو جنم دیا۔
یہ شبہات پیدا ہوئے کہ ممکنہ طور پر غیر منتخب قوتوں نے انتخابات میں مداخلت کی۔ سیاسی جماعتوں، بشمول اپوزیشن، نے شدید خدشات کا اظہار کیا کہ عوام کی خواہشات ایک بار پھر مٹی میں ملائی گئی ہیں۔ انتخابی نتائج کے اعلان میں تاخیر نے احتجاج اور شفافیت کی مانگ کو مزید بڑھا دیا۔ ان مسائل نے عوام کے انتخابی عمل پر اعتماد کو مزید گہرا کیا، اور جمہوریت کی حیثیت کو مزید چیلنج کیا۔
�موجودہ قیادت کا پیغام
وزیر اعظم اور صدر پاکستان اکثر جمہوریت کی اہمیت پر بات کرتے ہیں، اور پاکستان کے مستقبل کے لیے امید اور عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے حالیہ بیان میں انتخابی اصلاحات اور شمولیت کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ ایک منصفانہ اور جائز نظام کو یقینی بنایا جا سکے۔ **صدر آصف زرداری نے قومی یکجہتی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو آئین کی حفاظت میں یقین رکھنا چاہیے۔ لیکن کیا موجودہ حکومت خود ایک عوامی فیصلہ ہے ؟؟؟؟
ان تصدیقوں کے باوجود، چیلنجز بے شمار ہیں۔ سچی جمہوریت صرف الفاظ سے حاصل نہیں کی جا سکتی—اسے نظاماتی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جو انتخابی شفافیت کو بحال کریں اور عوام کے ووٹ کی حقیقی نمائندگی کو یقینی بنائیں۔
سچی جمہوریت کے لیے ایک اپیل
جب ہم بین الاقوامی یومِ جمہوریت مناتے ہیں، تو یہ ضروری ہے کہ پاکستان کی جمہوریت کی حالت پر غور کریں۔ جبکہ پاکستانی عوام سچی جمہوریت کی امید رکھتے ہیں، انہیں ملٹری کی مداخلت، کم ووٹر ٹرن آؤٹ، اور مخالفت کی کچلن جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری اور عوامی رائے کو نظرانداز کرنے جیسے اقدامات نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ ملک کو سچی جمہوریت حاصل کرنے کے لیے ابھی بہت سفر طے کرنا ہے۔
یہ دن یاد دلاتا ہے کہ جمہوریت صرف انتخابات کا انعقاد نہیں بلکہ ان انتخابات کی سچائی کو بھی یقینی بنانا ہے۔ پاکستان کے لیے آگے بڑھنے کے لیے، اسے ان چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا، اپنے شہریوں کو بااختیار بنانا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان کی آواز سنی جائے اور عزت دی جائے۔