آزادی صحافت کا عالمی دن، لیکن بلوچستان میں صحافت خود قید میں
تین مئی کو دنیا بھر میں عالمی یومِ آزادی صحافت منایا جاتا ہے۔ اس دن آزادی اظہار، جمہوری اقدار اور صحافیوں کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنیکا موقع ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان، خصوصا بلوچستان جیسے حساس خطے میں، یہ دن ایک سوالیہ نشان بن کر سامنے آتا ہے: کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ کیا ہمارے صحافی محفوظ ہیں؟ کیا سچ بولنے کی کوئی قیمت نھیں؟
بلوچستان، سچ بولنے والوں کیلئے خطرناک سرزمین
بلوچستان میں صحافت ایک ایسا پیشہ بن چکا ہے جس میں صرف قلم نہیں، جان بھی داؤ پر لگتی ہے۔صحافیوں کو اغوا، تشدد، اور دھمکیوں کا سامنا روز کا معمول بن چکا ہے۔ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 180 میں سے 158ویں نمبر پر ہے، جو میڈیا پر سنگین پابندیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ نجی نیوز کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پچھلے ایک سال میں 5 صحافی قتل کئے جا چکے ہیں۔ ان میں سے کئی کیسز کا تعلق بلوچستان سے ہے جہاں نہ قاتل پکڑے گئے، نہ لواحقین کو انصاف ملا۔
قانون یا جبر کا ہتھیار؟
2025 میں منظور ہونیوالی پیکا ترمیم نے “خوف یا بداعتمادی پھیلانیوالی جھوٹی معلومات” کو جرم قرار دیا ہے، لیکن اس قانون کا اصل ہدف سچ بولنے والے صحافی اور نقاد بنتے جا رہے ہیں۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اسے کالا قانون قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے، کیوں کہ اسکے ذریعے اختلافی آوازوں کو دبانیکی کوشش کی جا رہی ہے۔
مالیاتی شکنجہ اور ادارتی آزادی کا بحران
صحافت صرف جسمانی تشدد تک محدود نہیں رہی، اب معاشی دباؤ* بھی ایک بڑا ہتھیار ہے۔حکومتی اشتہارات کی من پسند تقسیم، مخصوص میڈیا ہاؤسز کو نوازنے اور آزاد اداروں کو مالی لحاظ سے مفلوج کرنیکی پالیسی نے صحافت کو مفلوج کر دیا ہے۔بلوچستان میں تو صورتحال اور بھی خراب ہے؛ درجنوں صحافی بغیر تنخواہ یا برائے نام معاوضے پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔
صحافیوں کی جدوجہد: سناٹا توڑنیکی کوشش
کوئٹہ پریس کلب ہو یا تربت، گوادر یا خاران صحافیوں کی یونینز اور نوجوان رپورٹر مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔وہ کالے جھنڈے اٹھا کر، اسمبلی کارروائیوں کا بائیکاٹ کر کے، اور تحریروں کے ذریعے یہ پیغام دے رہے ہیں:ہم زندگی نہیں گزار رہے، زندگی ہمیں گزار رہی ہے۔
آزادی کی جدوجہد: فرد کی نہیں، قوم کی لڑائی
ڈان کے ادارتی مضمون “Truth Under Fire” میں یہ بالکل درست لکھا گیا ہے کہ “آزادیٔ صحافت کو بچانے کیلیے صرف نعروں کی نھیں بلکہ عملی اقدامات، قانون سازی اور بااختیار اداروں کی ضرورت ہے۔”یہ صرف صحافیوں کی نہیں، ہر اس شہری کی جنگ ہے جو سچ سننا چاہتا ہے، حقائق پر یقین رکھتا ہے، اور جمہوریت میں سانس لینا چاہتا ہے
ہم کیا کر سکتے ہیں؟
1. صحافیوں کی حفاظت* کے لیے مؤثر قانون سازی اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
2.ہیکا اور دیگر کالے قوانین کا فوری جائزہ لے کر ان میں اصلاحات کریں۔
3.بلوچستان کے صحافیوں کو مالی، تربیتی، اور تکنیکی مدد فراہم کیجائے تاکہ وہ عالمی سطح پر اپنی آواز بلند کر سکیں۔
4.عوامی سطح پر شعور اجاگر کریں کہ صحافت جرم نہیں بلکہ قوم کی نبض ہے۔
آج، تین مئی کو ہمیں اُن تمام صحافیوں کو یاد رکھنا ہے جنہوں نے سچ بولنے کی قیمت اپنی جانوں سے ادا کی۔ہمیں انکے مشن کو آگے بڑھانا ہے، انکے خوابوں کو زندہ رکھنا ہے، اور یہ پیغام دنیا کو دینا ہے کہ:سچ کو دبایا جا سکتا ہے، مٹایا نہیں جا سکتا۔