بینظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون تھیں جو کسی ملک کی حکمران بنیں۔ ان کا شمار جنوبی ایشیا کی سب سے بااثر رہنماؤں میں سے ایک تھیں۔
پاکستان کے ایک نمایاں سیاسی خاندان میں 21 جون 1953 کو بےنظیر کا جنم کراچی شہر میں ہو ئیں۔ 16 سال کی عمر میں ہارورڈ کے ریڈکلف کالج میں داخلہ لیا اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک سے باہر چلی گئیں ۔ ریڈکلف سے اپنی گریجویشن کے بعد، انگلینڈ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے 1977 میں دوسری ڈگری حاصل کی۔
سیاست میں انٹری :
اسی سال وہ پاکستان واپس لوٹیں تو کچھ دن بعد فوج نے ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹایا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا. آپ کے والد کو سیاسی قیدی بنایا گیا اور 4 اپریل 1979 میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے ان کے والد کو پھانسی دے دی۔
بینظیر بھٹو کو اگلے تین سال مسلسل قید کے علاوہ متعدد بار سیاسی قیدی ببنے کے بعد 1984 میں انہیں ملک چھوڑنے کی اجازت مل گئی۔ وہ لندن میں مقیم ہوئیں جہاں اپنے دو بھائیوں کے ساتھ مل کر ایک خفیہ سیاسی تنظیم کے ذریعے فوجی آمریت کے خلاف مزاحمت شروع کی۔
1985 میں ان کے بھائی شاہنواز بھٹو کا فرانس کے شہر نیس میں مبینہ قتل کے بعد بی بی وہ ان کی تدفین کے لیے پاکستان واپس آئیں. پاکستان پہچنے پر ایک بار پھر حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت پر گرفتار کر لیا گیا۔ رہائی ملنے پر دوبارہ لندن چلی گئیں. اسی سال کے اختتام پر جنرل پاکستان میں مارشل لابھی ختم ہو گیا۔
بینظیر بھٹو اپریل 1986 میں پاکستان واپس آئیں اور ضیاء الحق کی ناجائز حکومت کے خلاف مظاہرے دوبارہ شروع ہوئے۔ عوام کا زبردست ردعمل کے ساتھ انہوںنے کھلے عام ضیاء الحق کے استعفے کا مطالبہ کی.
بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد آسان نہیں تھی. 1988 میں پہلی بار پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں جو کہ ملک کی اگیاہویں وزیراعظم تھیں . کرپشن کا نعرہ جلد ان کا اقتدار لے ڈوبا لیکن 1993–1996 میں دوبارہ وزیراعظم کہ عہدے پر فائز ہوئیں. اپنی دو مدتیں (1988–1990 اور 1993–1996) معیشت اور ادارہ جاتی اصلاحات فراہم کرنے میں ناکام رہیں۔ لیکن ان کا کرشمہ اور وژن ناقابل تردید تھے.
پاکستانی خواتین کے لیے مشعل راہ
بے نظیر بھٹو شہید پاکستان کی تاریخ میں ان نمایاں خواتین شخصیت میں سے ہیں، جنہوں نے نہ صرف سیاسی کامیابیوں کے ذریعے بلکہ ایک روایتی معاشرے میں خواتین کے لیے ہمت اور طاقت کی علامت بن کر خود کو منوایا۔
بی بی کی زندگی کامیابیوں اور مشکلات کا حسین امتزاج تھی، جس میں قیادت، جنس، اور سیاست کے مختلف پہلو شامل ہیں۔
امید کی علامت
بے نظیر بھٹو کی بطور وزیر اعظم تعیناتی پاکستان اور مسلم دنیا کے لیے ایک انقلابی لمحہ تھا۔ ان کی قیادت نے دقیانوسی تصورات کو توڑ دی. بی بی کی جد و جہد نے یہ ثابت کیا کہ خواتین قدامت پسند معاشروں میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہو سکتی ہیں۔ پاکستانی خواتین کے لیے وہ امید کی ایک ایسی علامت تھیں، جو ان مواقع کی نمائندگی کرتی تھیں جنہیں اکثر صنفی کردار تک محدود کر دیا جاتا ہے۔
خواتین کی وکیل :
پاکستان میں بے نظیر بھٹو نے خواتین کے لیے تعلیم، صحت، اور ان سماجی اصلاحات اور بنیادی حقوق کی وکالت کی. ان کی موجودگی نے خواتین کو عوامی زندگی میں حصہ لینے کی ترغیب دی اور عالمی سطح پر پاکستانی خواتین کی طاقت کا ثبوت پیش کیا۔
روشنی کی امید بجھ گئی
27 دسمبر 2007 کو روشنی کی یہ امید اس وقت گل ہوگئی جب ایک 15 سالہ “خودکش حملہ آور بلال” نے راولپنڈی لیاقت باغ میں خود کو “اڑا” دیا.عینی شاہدین کے مطابق ، لیاقت باغ میں انتخابی جلسہ ختم کر کے اپنی گاڑی میں جا رہی تھیں جب “خودکش حملہ آور بلال” نے ان کی گاڑی کے قریب آ کر گولی چلائی اور پھر “خود کو دھماکے سے اڑا” لیا۔ بلال کو یہ حملہ کرنےکرنے کس نے کہا تھا یہ اب تک واضح نہیں ہے لیکن پاکستانی طالبان نےاس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
اپنی موت سے پہلے وہ تیسری بار وزیر اعظم بننے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ان کے قتل نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کو جنم دیا.لوگوں نے سڑکوں پررکاوٹیں کھڑی کیں، آگ لگائی، توڑ پھوڑ ہوئی وہ مشرف حکومت کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے.
حملے سے کچھ منٹ پہلے ان کی گاڑی میں لی گئی یہ تصویر ،پاکستان میں ہر مذہمت کی آواز بن گئی ۔
مشرف پر بی بی قتل کیس
پرویز مشرف کو بینظیر بھٹو قتل کیس میں سازش ،سہولت کاری اور قتل، کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیوں کہ 25 ستمبر کو، جب بینظیر امریکہ میں تھیں، مشرف نے انہیں کال کی اور واپس نہ آنے کی دھمکی دی۔
مشرف نے ان الزامات کو مسترد کیا اور کہا، “میں اس بات پر ہنستا ہوں، آخر میں انہیں کیوں قتل کرتا؟”
وہ کہا جاتا ہے نا کہ لوگ مر جاتے ہیں لیکن انہوں نے کسی کے لیے کیا کیا ہے وہ باقی اور یاد رہتا ہے. بس ایسے ہی بے نظیر بھٹو شہید کی زندگی پاکستان کی تاریخ میں ایک دلچسپ باب ہے، جو قیادت، ہمت، اور تبدیلی کی مسلسل جدوجہد کے اسباق پر مشتمل ہے ۔ پاکستانی خواتین کے لیے، وہ جدوجہد اور خوابوں کا عکس ہیں۔ ان کی خدمات اور ان کی منفی پہلوؤں سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ ور ان کی وراثت آنے والی نسلوں کو حوصلہ دیتارہے گا۔