گوادر: حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ

گوادر: حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ

ضلعی انتظامیہ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مابینمبینہ معاہدے میں مندرجہ ذیل نکات پر اتفاق ہوا ہے نمبر1بلوچستان اور کراچی میں راجی مچی کی پاداش میں گرفتار شدہ افراد کی دھرنا ختم ہونے سے پہلے رہائی کا حکم جاری کیا جائے گا اور جن افراد کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجا گیا انہیں عدالتی کاروائی کے بعد 5اگست 2024تک رہا کیا جائے گا سندھ میں گرفتار افراد کے لیے صوبائی حکومت بلوچستان سندھ حکومت سے رابطہ کرے گی اور ان کی رہائی یقینی بنائی جائے گی تمام ایف آئی آر درج شدہ مقدمات خارج کئے جائیں گے ماسوائے وہ مقدمات جن میں جانی نقصانات ہوئے ہیںنمبر 2تمام راستے اور شاہراہیں دھرنا ختم ہوتے ہی تمام تر ٹریفک کیلئے کھول دی جائیں گی نمبر 3 دھرنا ختم ہوتے ہی نیٹ ورک اور انٹرنیٹ 2سے 3گھنٹوں میں بحال ہونا شروع ہوجائے گا نمبر 4تمام اشیا جو حکومتی اداروں کے قبضے میں ہیں وہ ایک ہفتے کے اندر واپس کی جائیں گی اور اس حوالے سے انتظامیہ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی نمبر 5دھرنا ختم ہوتے ہیں کسی بھی شہری کو اس دھرنے کی پاداش میں نہ ہی ہراساں کیا جائے گا اور نہ ہی انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنا یا جائے گا اور نہ ہی اس راجی مچی کے حوالے سے کوئی ایف آئی آر کی جائے گی نمبر 6راجی مچی احتجاج ار دھرنے میں جانی نقصان اور زخمی ہونے کی صورت میں ایف آئی آر درج کی جائے گی جوکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لواحقین کی مدعیت میں ہوگی نمبر 7گوادر میرین ڈرائیو کے ساتھ بلوچستان بھر میں راجی مچی کے حوالے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنا ختم کئے جائیں گے مسنگ پرسنز پر ”نینشل کانسنس اینڈ لیگل ریزولوشن“ کے تحت حکومت نے ہر خاندان کی معاشی مشکلات کو دور کرنے کے لیے گرانٹ کے طور پر 50 لاکھ روپے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔حکومت کی جانب سے گرانٹ پانچ سال سے زیادہ عرصے والے ” گمشدہ افراد“ کے خاندانوں کو دی جائے گی۔ ریاست ”گمشدہ افراد“ کی ذمہ دار نہیں لیکن متاثرہ خاندانوں کے دکھ میں شریک ہے۔حکومتی ذرائع کے مطابق سابق پی ڈی ایم کی حکومت میں اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا۔ انکوائری ایکٹ کے تحت جو کمیشن بنا ہے ان میں 2269افراد کا ڈیٹا ہے، ایک ہزار کیسز جو پانچ سال سے زیادہ زیر التوا ہیں ان کو حل کیا جائے گا۔وفاقی کابینہ نے ایک ہزار لاپتا افراد کو یہ امداد دینے کا فیصلہ کیا ہے، لاپتا افراد میں اگر کوئی سربراہ ہے تو نادرا کے ذریعے ان کا قانونی سرٹیفکیٹ بنایا جائے گا تاکہ ان کے وراثت کے مسائل ہوں۔پنجاب میں 1681لاپتا افراد تھے جن میں سے 1418 کو حل کر لیا گیا، 263 حل طلب ہیں اور 56کیسز عدالتوں میں ہیں۔ سندھ میں 1823لاپتا افراد ہیں جن میں سے 1645 حل ہوگئے جبکہ 178حل طلب ہیں اور عدالت میں 232کیسز زیر التوا ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 3548 لاپتا افراد کے کیسز ہیں جن میں سے 2231حل ہوگئے جبکہ 1317 حل طلب اور 203 عدالت میں ہیں۔ بلوچستان میں 2798لاپتا افراد کے کیسز ہیں جن میں سے 2623 حل کر لیے گئے جبکہ 436حل طلب ہیں اور کورٹ میں تین کیسز زیر التوا ہیں۔اسلام آباد میں 381 کیسز ہیں جن میں سے 322 حل کر لیے گئے جبکہ 59حل طلب ہیں اور عدالت میں 31کیسز زیرا لتوا ہیں۔ آزاد کشمیر میں کل 70کیسز تھے جن میں سے 56 حل کر لیے گئے اور 14 حل طلب ہیں۔ گلگت بلتستان میں 10 کیسز تھے جن میں 8حل کر لیے گئے اور 2کیسز باقی ہیں۔لاپتا افراد کی گرانٹ کے لیے طریقہ کار طے کیا جا رہا ہے سب کو معاوضہ دیا جائے گا، لاپتا افراد کے خاندان کمیشن میں پیش بھی ہو رہے ہیں اور اپنی تفصیلات شیئر بھی کر رہے ہیں۔ لاپتا افراد کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سال 2011 میں انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن بنا تھا، جبری گمشدگی کے 78فیصد کیسز حل ہوچکے ہیں جبکہ 22فیصد باقی ہیں۔مسئلے کے حل کے لیے حکومت، عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اورسوسائٹی نے کام کیا اور پھر یہ کمیشن بنا۔ اب حکومت نے لاپتا افراد کی فیملیز کے لیے ری ہیبلیٹیشن کا آغاز کیا ہے تاکہ حکومت ان کے دکھوں کا مداواں کر سکے، کابینہ نے پیکج کی منظوری دی تاکہ ان کے دکھوں کا مداواں کر سکے، ریاست کے پاس کوئی مسنگ پرسن نہیں۔حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ لاپتا افراد کو خاندانوں کو درپیش قانونی مسائل کو حل کرنے کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے، نادرا اور جائیدادوں سے متعلق معاملات کے لیے ایک ایبسنز سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔لاپتا افراد میں ریاست اور حکومت کا کوئی کردار نہیں لیکن حکومت مدر ہڈ پالیسی کے تحت لاپتا افراد کے خاندانوں کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے، فنانشل سپورٹ اور ری ہیبلیٹیشن گرانٹ قومی اتفاق رائے سے لائی گئی ہے۔ لاپتا افراد کے خاندانوں کو 50 لاکھ روپے فی خاندان دیا جائے گا۔حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ لاپتہ افراد دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گئے اور کچھ دہشتگردوں کے ساتھ مل گئے، کچھ آپریشن میں مارے گئے۔ چھیپا اور ایدھی نے 2010 سے اب تک 44ہزار افراد دفنائے جو ناقابل شناخت ہیں۔ لاپتا افراد میں کوئی جنگ لڑنے تو کوئی پہاڑوں پر گیا اس میں ان کے خاندانوں کا تو کئی قصور نہیں ہے

Author

اپنا تبصرہ لکھیں