مسیحی برادری کی جیت،شہزاد کی کامیابی نے بلوچستان میں نئی مثال قائم کر دی
بلوچستان کے پسماندہ ضلع خاران میں صدیوں سے آباد مسیحی برادری ہمیشہ صفائی، خدمت خلق اور دیانت داری جیسے پیشوں میں اپنی شناخت رکھتی آئی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے تعلیم کے میدان میں یہ برادری وہ مقام حاصل نہ کر سکی جس کی وہ بجا طور پر حقدار تھی۔ معاشرتی رکاوٹیں، محدود مالی وسائل اور ریاستی سطح پر عدم توجہی نے اس کمیونٹی کے نوجوانوں کو تعلیمی ترقی سے دور رکھا۔
ایسے میں شہزاد مسیح کی کامیابی نہ صرف ایک انفرادی کارنامہ ہے بلکہ ایک پوری برادری کے لیے نئی امید کا استعارہ بن چکی ہے۔ شہزاد مسیح، جو خاران میں اپنی برادری کے اولین اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں شمار ہوتے ہیں، نے نامساعد حالات، معاشی تنگ دستی اور سماجی رکاوٹوں کے باوجود اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھا اور آخرکار بلوچستان پبلک سروس کمیشن کا امتحان کامیابی سے پاس کر لیا۔
یہ کامیابی صرف ایک سرکاری ملازمت کا حصول نہیں بلکہ ایک خواب کی تعبیر ہے جو کئی دہائیوں سے آنکھوں میں پَل رہا تھا۔ شہزاد نے نہ صرف اپنے خاندان کو فخر کا موقع دیا بلکہ پوری مسیحی برادری کے لیے عزم، خودداری اور بلندیوں کی نئی راہیں ہموار کر دی ہیں۔
سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی کامیابیاں اقلیتوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی عملی مثال ہوتی ہیں اور ان سے محروم طبقات کو یہ پیغام ملتا ہے کہ جدوجہد اور استقامت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
شہزاد مسیح کی کامیابی دراصل اس خاموش جدوجہد کی گواہی بھی ہے جو پاکستان کی مسیحی برادری برسوں سے دیانت، خدمت اور حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ کر رہی ہے۔ اب وقت ہے کہ ریاستی ادارے، مقامی حکومتیں اور تعلیمی پالیسی ساز اس کامیابی کو ایک آغاز سمجھتے ہوئے اقلیتی نوجوانوں کے لیے مخصوص اسکالرشپ پروگرام، گائیڈنس سینٹرز اور مواقع فراہم کریں تاکہ شہزاد جیسے ہیرے صرف استثناء نہ رہیں بلکہ تبدیلی کی لہر کا پیش خیمہ بنیں۔