گوادر میں کتابوں کی گرفتاری: علم و شعور پر پہرہ؟

گوادر میں کتابوں کی گرفتاری: علم و شعور پر پہرہ؟

گوادر میں کتابوں کی گرفتاری: علم و شعور پر پہرہ؟

گوادر میں کتابوں کی گرفتاری کا ایک انوکھا واقعہ سامنے آیا ہے، جس کا مقصد یہ جانچنا بتایا جا رہا ہے کہ آیا ان کتابوں میں ریاست مخالف مواد موجود ہے یا نہیں۔ یہ اقدام مقامی اور قومی سطح پر بحث کا باعث بن گیا ہے، جہاں ایک طرف حکومتی اقدامات کو ریاستی سلامتی کے تحفظ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، وہیں دوسری طرف اسے آزادیِ اظہار پر قدغن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔حکومتی ذرائع کے مطابق، یہ کارروائی اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کی گئی ہے کہ عوام کو ایسی معلومات فراہم نہ کی جائیں جو ریاست کے مفادات کے خلاف ہوں۔

تاہم، مقامی افراد اور ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ کتابوں کی گرفتاری علم اور شعور کو دبانے کی کوشش ہے، جو ایک جمہوری معاشرے کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔گوادر کے شہریوں نے اس اقدام پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کتابیں ترقی اور شعور کی بنیاد ہوتی ہیں، اور انہیں محدود کرنا عوام کے تعلیمی اور فکری حقوق کی خلاف ورزی ہے۔یہ واقعہ ایک اہم سوال اٹھاتا ہے: کیا ریاست مخالف مواد کی روک تھام کے لیے ایسے اقدامات ضروری ہیں، یا یہ معاشرتی ترقی اور آزادیِ اظہار کو نقصان پہنچا سکتے ہیں؟

مقامی ذرائع کے مطابق، یہ واقعہ ان کتابوں سے متعلق ہے جنہیں تعلیمی اداروں یا عوامی اجتماعات میں تقسیم کیا جا رہا تھا۔ حکومتی مؤقف کے مطابق، یہ کارروائی قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے کی گئی، تاہم عوام کا کہنا ہے کہ اس سے آزادیِ اظہار اور تعلیمی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔

ویسے توکتب بینی کا فروغ، پڑھنے کی آزادی اور مطالعے کی اہمیت انسانی ترقی کی بنیاد ہیں۔ لیکن شاید پاکستان اپنی کوئی منفرد لکھنا تاریخ رقم کرنا چاہتا ہے جہاں لکنھے، پڑھنے اور بولنے کے لیے اجازت چاہیے۔ اب کون کہے گا کتابوں سے دوستی کرلیں۔ ویسے تو مختلف ادوار میں کتابوں کو جلانے اور علم کو دبانے کی کوششیں کی گئیں، جیسے قرونِ وسطیٰ میں اسپین کے انکویزیشن دور میں عربی کتب کو آگ لگائی گئی یا نازی جرمنی میں لاکھوں کتابوں کو جلا کر آزادیٔ اظہار پر قدغن لگائی گئی۔ اسی طرح برصغیر کے کئی حصوں میں غلامی کے دوران عام لوگوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا تاکہ انہیں بےخبر اور محکوم رکھا جا سکے۔ تاہم، کتابوں کی روشنی ہمیشہ ظلم کے اندھیروں کو شکست دیتی ہے، کیونکہ علم ہی وہ ہتھیار ہے جو انسان کو آزادی، شعور اور ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ کتابوں کا مطالعہ نہ صرف ماضی کو سمجھنے بلکہ مستقبل کو بہتر بنانے کا ذریعہ بھی ہے۔

بلوچستان کے علاقے گوادر میں وقوع پذیر ہونے والا یہ واقعہ نہ صرف گوادر کے عوام بلکہ پورے ملک کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ سوال تو بے شمار ہیں لیکن اہم یہ ہے کہ کیا کتابوں کی آزادی پر قدغن لگانا مسائل کا حل ہے، یا یہ معاشرتی ترقی کے خلاف ایک قدم

Author

اپنا تبصرہ لکھیں