خبروں کی رپورٹنگ میں احتیاط ضروری: صحافی کیاکریں

یہ بات حقیقت ہے کہ صحافت صرف خبروں کو پہنچانے کا نام نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ اخلاقیات اور ذمہ داری کا بھی گہرا تعلق ہے۔ ایک صحافی کو اپنے فرائض انجام دیتے وقت اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اس کی رپورٹنگ کا معاشرے پر کیا اثر پڑے گا؟محض ویوز اور ریٹنگز کے لیے خبروں کو سنسنی خیز بنا کر پیش کرنا صحافت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔

اکثر مجھ سمیت کئی صحافی بغیر سوچے سمجھے ہر خبر کو عام کرتے ہیں، خاص طور پر ایسے معاملات جن میں خواتین یا دیگر حساس موضوعات شامل ہوں، تو ہم ان افراد کی زندگیاں مزید مشکل بنا دیتے ہیں جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں۔ ایسے حالات میں صحافی کو احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا کسی خبر کو عام کرنے سے کسی کی عزت یا زندگی پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

اس حوالے سے گذشتہ کچھ واقعات آپ کی اور میری توجہ کے منتظر ہیں – اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا معاملہ ایک واضح مثال ہے کہ کیسے حساس معاملات کو احتیاط سے ڈیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ وہاں کے واقعات سنگین تھے، لیکن اس کی رپورٹنگ نے کئی معصوم بچیوں اور ان کی فیملیز کے لیے بے پناہ مشکلات پیدا کیں۔ اگر اس معاملے کی تحقیقات خاموشی سے کی جاتیں اور میڈیا کی کوریج کو محدود رکھا جاتا، تو شاید یہ زیادہ مناسب ہوتا۔

تاہم، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اکثر معاملات کو میڈیا کی توجہ حاصل ہونے تک سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ میڈیا کی رپورٹنگ ہی وہ دباؤ پیدا کرتی ہے جو حکام کو کارروائی پر مجبور کرتی ہے۔ لیکن اس دباؤ کو ایجاد کرتے وقت، صحافیوں کو اپنی ذمہ داریوں کا مکمل احساس ہونا چاہیے اور ایسی رپورٹنگ سے گریز کرنا چاہیے جو بے جا تذلیل یا ہراس کا باعث بنے۔

اس ہی طرح نور مقدم کا قتل، ایک ایسا دل دہلا دینے والا واقعہ تھا جس نے پورے پاکستان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس افسوسناک واقعے نے نہ صرف معاشرتی سطح پر سنگین سوالات کو جنم دیا بلکہ اس نے نور مقدم کی شخصیت اور کردار پر بھی گہرا اثر ڈالا۔

نور مقدم ایک تعلیم یافتہ، خودمختار اور متحرک نوجوان لڑکی تھی۔ وہ ایک خوشحال اور معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھی، اور اس کا معاشرتی حلقہ وسیع تھا۔ لیکن اس المناک واقعے کے بعد، نہ صرف اس کی زندگی بلکہ اس کی یاد بھی بدل گئی۔ نور کے بارے میں جو مثبت تصویریں لوگوں کے ذہنوں میں تھیں، وہ اس قتل کے بعد خوف اور غم میں بدل گئیں۔

نور مقدم کے قتل کے بعد، بہت سے لوگوں نے مختلف نظریات اور قیاس آرائیاں کیں، جن میں سے بعض نے ان کی ذاتی زندگی اور کردار پر سوال اٹھائے۔ یہ معاشرتی رویہ نہایت افسوسناک ہے، کیونکہ کسی بھی مقتول کی یاد کو بگاڑنا اور اس کے کردار پر سوال اٹھانا نہایت غلط ہے۔

ایک اور مثال کو دیکھیں، جب قندیل بلوچ کا قتل ہوا تھا، تو میڈیا اور عوامی حلقوں میں بھی ان کی زندگی اور کردار پر مختلف تبصرے کیے گئے۔ قندیل بلوچ، جو ایک معروف سوشل میڈیا شخصیت تھیں، ان کے قتل کے بعد لوگوں نے ان کی تصاویر اور ویڈیوز کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کی زندگی کے ہر پہلو کو غیر ضروری طور پر زیر بحث لایا۔

اسی طرح، نور مقدم کے قتل کے بعد بھی سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی باتیں کی گئیں، جن میں سے کچھ نے ان کی شخصیت پر منفی اثر ڈالا۔۔
نور مقدم کا قتل ایک ایسا دل دہلا دینے والا واقعہ تھا جس نے پورے پاکستان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس افسوسناک واقعے نے نہ صرف معاشرتی سطح پر سنگین سوالات کو جنم دیا بلکہ اس نے نور مقدم کی شخصیت اور کردار پر بھی گہرا اثر ڈالا۔

نور مقدم ایک تعلیم یافتہ، خودمختار اور متحرک نوجوان لڑکی تھی۔ وہ ایک خوشحال اور معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھی، اور اس کا معاشرتی حلقہ وسیع تھا۔ لیکن اس المناک واقعے کے بعد، نہ صرف اس کی زندگی بلکہ اس کی یاد بھی بدل گئی۔ نور کے بارے میں جو مثبت تصویریں لوگوں کے ذہنوں میں تھیں، وہ اس قتل کے بعد خوف اور غم میں بدل گئیں۔

کردار کی تباہی

نور مقدم کے قتل کے بعد، بہت سے لوگوں نے مختلف نظریات اور قیاس آرائیاں کیں، جن میں سے بعض نے ان کی ذاتی زندگی اور کردار پر سوال اٹھائے۔ یہ معاشرتی رویہ نہایت افسوسناک ہے، کیونکہ کسی بھی مقتول کی یاد کو بگاڑنا اور اس کے کردار پر سوال اٹھانا نہایت غلط ہے۔

ایک اور مثال کو دیکھیں، جب قندیل بلوچ کا قتل ہوا تھا، تو میڈیا اور عوامی حلقوں میں بھی ان کی زندگی اور کردار پر مختلف تبصرے کیے گئے۔ قندیل بلوچ، جو ایک معروف سوشل میڈیا شخصیت تھیں، ان کے قتل کے بعد لوگوں نے ان کی تصاویر اور ویڈیوز کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کی زندگی کے ہر پہلو کو غیر ضروری طور پر زیر بحث لایا۔

اسی طرح، نور مقدم کے قتل کے بعد بھی سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی باتیں کی گئیں، جن میں سے کچھ نے ان کی شخصیت پر منفی اثر ڈالا۔ معاشرے کی یہ روش ظاہر کرتی ہے کہ جب بھی کوئی عورت کسی سنگین جرم کا شکار ہوتی ہے، تو اس کے کردار پر سوال اٹھانا ایک عام بات بن جاتی ہے۔

معاشرتی اثرات

نور مقدم کے قتل نے معاشرتی سطح پر بھی کئی سوالات کو جنم دیا۔ ایک طرف جہاں اس واقعے نے عورتوں کی حفاظت اور حقوق کے بارے میں شعور بیدار کیا، وہیں دوسری طرف اس نے یہ بھی واضح کیا کہ معاشرتی رویے کس حد تک بے حس ہو چکے ہیں۔ کسی بھی مقتول کے کردار پر سوال اٹھانا اور اس کی یاد کو داغدار کرنا ایک ایسی روش ہے جو معاشرتی بگاڑ کی علامت ہے۔

نور مقدم کا قتل ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ہم سب کو ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے اور کسی بھی فرد کی موت کے بعد اس کے کردار پر سوال اٹھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی سوچ کو بدلیں اور معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے اقدامات کریں۔

معاشرے کی یہ روش ظاہر کرتی ہے کہ جب بھی کوئی عورت کسی سنگین جرم کا شکار ہوتی ہے، تو اس کے کردار پر سوال اٹھانا ایک عام بات بن جاتی ہے –

صحافیوں کا کردار معاشرے میں بہت اہم ہوتا ہے، خاص طور پر جب وہ ایسے حساس موضوعات جیسے کہ ریپ یا دہشت گردی کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات کی رپورٹنگ کرتے وقت صحافیوں کو نہایت احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کیونکہ ان کی رپورٹنگ کا متاثرین، ان کے خاندانوں اور پورے معاشرے پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ صحافیوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کی رپورٹنگ غیر جانبدار، حقیقت پر مبنی اور متاثرین کی عزت کا خیال رکھتی ہو۔

ریپ یا دہشت گردی،اور دیگر حادثات، جیسے معاملات کی رپورٹنگ کرتے وقت سنسنی خیزی سے گریز کرنا بہت ضروری ہے۔ صحافیوں کو چاہئے کہ وہ محض ویوز یا ریٹنگز کے چکر میں ایسے الفاظ یا تصاویر کا استعمال نہ کریں جو متاثرین یا ان کے خاندانوں کے لئے مزید تکلیف کا باعث بنیں۔

اس کے بجائے، رپورٹنگ کا مقصد مسئلے کو اجاگر کرنا، انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا اور معاشرے کو اس قسم کے جرائم کے خلاف آگاہی فراہم کرنا ہونا چاہئے۔ صحافت کی اس ذمہ داری کا مقصد نہ صرف حقیقت کو پیش کرنا بلکہ معاشرے کی اصلاح کے لیے بھی کام کرنا ہوتا ہے۔

میری اپیل ہے کہ ہم سب مل کر ایسے معاملات میں احتیاط سے کام لیں، خاص طور پر جہاں خواتین یا حساس ویڈیوز کا تعلق ہو۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم کسی کی زندگی کو مزید مشکلات میں نہ ڈالیں، اور ایسے معاملات میں سوشل میڈیا پر شیئر کرنے سے گریز کریں۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو محفوظ اور باعزت بنائیں۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں