مبارک ثانی کیس کیا ہے؟
ساتھ مارچ 2019 کو صوبہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں احمدیہ کمیونٹی کے چند اراکین نے مبینہ طور پر تحریف شدہ قرآن کی تفسیر بچوں میں تقسیم کی۔اس واقعے کے تقریباً تین سال بعد چھ دسمبر 2022 کو چنیوٹ کے علاقے چناب نگر میں قانون کی تین شقوں کے تحت مقدمہ درج ہوا۔ان میں سے ایک شق پنجاب قرآن (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) ایکٹ 2010 ہے۔اس قانون کے مطابق اگر قرآن مجید کے کسی نسخے میں ’کسی غیر مسلم کی جانب سے کسی آیت کا ترجمہ، تفسیر یا تبصرہ مسلمانوں کے عقیدے کے برعکس کیا گیا ہو تو اسے تین سال تک کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔اسکے علاوہ دفعہ 295 بی اور 298 سی بھی لگائی گئیں۔ 295 بی کے مطابق قرآن کو توہین آمیز طریقے سے برتنا یا اسے غیر قانونی طور پر نقصان پہنچانا جرم ہے۔
اس کی سزا عمر قید ہے۔298 سی کا تعلق احمدیہ مذہب سے ہے اور اس کے تحت احمدی اپنے عقائد کی تبلیغ نہیں کر سکتے۔ اس کی سزا تین برس قید ہے۔اسکے بعد سات جنوری 2023 کو پولیس نے مبارک احمد ثانی نامی ایک شخص کو گرفتار کر لیا اور الزام لگایا گیا کہ وہ یہ تفسیر تقسیم کر رہے تھے۔البتہ ابتدائی ایف آئی آر میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔مبارک ثانی کی گرفتاری کے خلاف اپیل کی گئی، جو پہلے ایڈیشنل سیشن جج اور پھر لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کر دی۔البتہ جب یہ اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تو سپریم کورٹ نے چھ فروری 2024 کو مبارک احمد ثانی کی ضمانت منظور کر لی۔
اس فیصلے کو مذہبی طبقے نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور خاص طور پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مہم چلائی گئی۔پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست کی جو سپریم کورٹ نے منظور کرتے ہوئے نظرِ ثانی درخواست نمبر دو منظور کر لی جب کہ تین اور چار مسترد کر دیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ 2019 میں ہونے والے واقعے پر ان دفعات کا اطلاق نہیں ہو سکتا جو 2021 میں بطور جرم قانون میں شامل ہوئیں۔عدالت نے کہا کہ ایف آئی آر کے مطابق ملزم اس نے 2019 میں تفسیر تقسیم کی جو پنجاب کے اشاعتِ قرآن قانون کے تحت جرم ہے، لیکن یہ قانون 2021 میں لاگو ہوا، اس کا اطلاق 2019 کے واقعات پر نہیں ہو سکتا کیوں کہ 2019 میں ایسا کرنا جرم نہیں تھا۔یہ معاملہ قومی اسمبلی میں بھی زیرِ بحث آیا اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف تک بھی پہنچا۔کمیٹی کے اجلاس میں حکومت اور حزبِ اختلاف نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ اس مقدمے کے قانونی پہلوؤں اور علمائے کرام کی رائے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے درخواست دائر کی جائے۔اسکے بعد 17 اگست 2024 کو وفاقی حکومت نے بھی اس معاملے پر اضافی نظرِ ثانی کی درخواست دیدی۔اسی مقدمے کی سماعت 22 اگست 2024 کو سپریم کورٹ میں ہو رہی ہے۔