اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے غیر ملکی زر مبادلہ (فاریکس) مارکیٹ میں ہیرا پھیری کرکے ایک سو ارب روپے کا ناجائز منافع کمانے والے آٹھ کمرشل بینکوں پر صرف 0.29؍ فی صد جرمانہ عائد کیا۔ صرف یہی نہیں، مرکزی بینک نے ایکسپورٹ فنانس اسکیم کے تحت ایک ایکسپورٹر کو بلاجواز قرضہ فراہم کیا۔ یہ وہی ایکسپورٹر ہے جسے پہلے غلط رپورٹنگ، نان شپمنٹ، ادائیگی میں تاخیر اور شارٹ شپمنٹ وغیرہ کی وجہ سے قرضوں کے مختلف کیسز میں 52 مرتبہ جرمانہ عائد کیا جا چکا ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے وفاقی حکومت کی 2023-24ء کی شائع شدہ آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے آڈٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ 2022ء میں یہ خبریں گردش کرتی رہیں کہ کمرشل بینکوں نے فاریکس مارکیٹ میں ہیرا پھیری کرکے سو ارب روپے کا ناجائز منافع کمایا۔ جون 2022 تک ایسے تقریباً آٹھ کمرشل بینکوں کی نشاندہی کی گئی جنہوں نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کے اتار چڑھائو کا فائدہ اٹھایا اور اوپن مارکیٹ اور انٹربینک ریٹس کے درمیان زبردست فرق سے بے تحاشا منافع کمایا،
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے ایک ریگولیٹر کی حیثیت سے ان بینکوں پر 29؍ کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا۔ عائد کردہ جرمانہ ہیرا پھیری کی رقم کا محض 0.29؍ فی صد تھا۔ تاہم، آڈیٹرز کو اس معاملے پر تفصیلی ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق، آڈیٹرز کا خیال ہے کہ غیر ملکی کرنسی میں ہیرا پھیری میں کمرشل بینکوں کے ملوث ہونے سے مقامی کرنسی (روپے) کی قدر کم ھوئی اور روپیہ بحیثیت کرنسی متاثر ہوا۔ اس صورتحال نے اندرونی ضابطوں کی کمزوری کو ظاہر کیا۔ اس حوالے سے انتظامیہ کو جون 2023ء میں اطلاع دی گئی۔ انتظامیہ نے اپنے جواب میں کہا کہ یہ معاملہ بینک کے ریگولیٹری افعال سے متعلق ہے اور یہ معاملہ اے جی پی آڈٹ کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ رپورٹ میں کہا گیا،
انتظامیہ کا یہ جواب قابل اعتبار نہیں تھا کیونکہ یہ غیر متعلقہ تھا۔ آڈیٹرز نے اسٹیٹ بینک کے ضابطوں اور نگرانی کے اسٹرکچر کو مستحکم کرنیکی ضرورت پر زور دیا اور حقائق جاننے اور اس معاملے کے آڈٹ کے لیے مفصل ریکارڈ فراہم کرنیکی سفارش کی۔ آڈٹ رپورٹ میں 1 اور کیس کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ اسٹیٹ بینک کی بینکنگ سروسز کارپوریشن کے سال 2020-21 اور 2021-22 کے آڈٹ کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ انتظامیہ نے ایک ایکسپورٹر میسرز کو مختلف ڈیلرز اور کمرشل بینکوں کے ذریعے قرضہ دلوایا۔ یہ ایکسپورٹر مختلف بے ضابطگیوں میں ملوث پایا گیا جن میں شارٹ شپمنٹ/تاخیر سے شپمنٹ، غلط رپورٹنگ، ادائیگی میں تاخیر وغیرہ شامل ہیں۔
یہ واضح تھا کہ ایکسپورٹر کو مختلف قرضوں کے کیسز کیلئے غلط رپورٹنگ/غلط رپورٹنگ/ نان شپمنٹ/ ادائیگی میں تاخیر وغیرہ کی وجہ سے 52؍ مرتبہ جرمانہ کیا گیا تھا۔ اس حقیقت کے باوجود انتظامیہ نے سبسڈی اسکیم کے تحت اس ایکسپورٹر کو معاونت فراہم کی۔ مزید برآں، ایکسپورٹر پر عائد کردہ جرمانے اور ہرجانیکی شرح بہت معمولی تھی۔ آڈیٹرز کا خیال ہے کہ ایکسپورٹر کی جانب سے متعدد مرتبہ بے ضابطگیوں کے باوجود اسٹیٹ بینک نے ایکسپورٹ فنانسنگ کی سہولت فراہم کی۔ یہ بات برآمدات کے معاملات پر جانبداری اور کمزور ضابطوں کو ظاہر کرتی ہے۔ انتظامیہ کو اس کیس کی اطلاع 20؍ مارچ 2023ء کو دی گئی۔ چھ دسمبر 2023 کو ہونیوالی ڈی اے سی کی میٹنگ میں اس بے ضابطگی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ڈی اے سی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ برآمد کنندگان کو قرضوں کی تقسیم کی پالیسی پر نظر ثانی کریں اور ایس او پیز کی عدم تعمیل پر ایکسپورٹرز کو وارننگ جاری کریں رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ڈی اے سی کی ہدایات پر عمل کیا جائے۔