سپریم کورٹ نے بشری بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیک کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کو آڈیو سننے سے روک دیا۔وفاقی حکومت کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 25 جون کے فیصلے کو چیلنج کرنے کی درخواست پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ نے یہ تعین کیا ہے کہ آڈیو کون ریکارڈ کر رہا ہے؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی تک یہ تعین نہیں ہوسکا، تفتیش جاری ہے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ بدقسمتی سے اس ملک میں سچ تک کوئی نہیں پہنچنا چاہتا، سچ جاننے کے لیے انکوائری کمیشن بنا، اسے سپریم کورٹ سے سٹے دے دیا گیا، سپریم کورٹ میں آج تک دوبارہ آڈیو لیکس کیس مقرر ہی نہیں ہوا، پارلیمان نے سچ جاننے کی کوشش کی تو اسے بھی روک دیا گیا، پارلیمان کو کام کرنے دیا جائے گا نہ عدالت کو تو سچ کیسے سامنے آئے گا؟جسٹس امین الدین نے کہا کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے جن سے بات کی جا رہی ہو ،
آڈیو انہوں نے لیک کی ہو، کیا اس پہلو کو دیکھا گیا ہے؟ آج کل تو ہر موبائل میں ریکارڈنگ سسٹم موجود ہے۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے نجم ثاقب اور بشریٰ بی بی کو نوٹس جاری کر دیئے۔عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات معطل کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عالیہ آڈیو لیکس سے متعلق کیس کی کارروائی آگے نہیں بڑھا سکتی، اسلام آباد ہائیکورٹ کا 29 مئی اور 25 جون کا حکم اختیارات سے تجاوز ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے پاس از خود نوٹس لینے کا اختیار نہیں۔سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی درخواست پر آڈیو لیک کیس کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔