جنوبی ایشیا میں توانائی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے علاقائی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ توانائی کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے ۔ یہ بات ماہرین نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی اور فریڈرش ناومن فاونڈیشن کے مشترکہ طور پر تیار کردہ مطالعے ”جنوبی ایشیا میں توانائی کی سکیورٹی: پائیدار ذرائع کی جانب منتقلی کا معاملہ“ کی کی رونمائی کے موقع پر کیا۔ اس موقع پر فریڈرش ناومن فاونڈیشن کی کنٹری ہیڈ، برگیٹ لام نے پاکستان میں توانائی کی قیمتوں پر موجودہ توجہ کے پیش نظر پائیدار توانائی کی پالیسیوں کی فوری ضرورت پر زور دیا۔انہوں نےکہا کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور گردشی قرضے کی وجہ سے اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوںنے ایندھن کے لئے عالمی مارکیٹ پر انحصار کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ایس ڈی پی آئی کے انرجی یونٹ کے سربراہ، عبید الرحمٰن ضیاءنے کہا کہ یہ مطالعہ خطے کے توانائی کے شعبے کے لئے ایک زیادہ جامع اور سبز مستقبل کے لئے ایک روڈ میپ تیار کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مالی رکاوٹیں، محدود مالیاتی جگہ، اور جامع توانائی پالیسیوں کی عدم موجودگی ، خطے کے توانائی کے منظر نامے کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔سری لنکا میں سنٹر فار انوائرمنٹل جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ہیمنتا ویٹھاناجے نے قابل تجدید توانائی کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لینے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا کہ توانائی کا تعاون منصفانہ قیمتوں پر مبنی ہو، اور ان علاقوں کا استحصال نہ کیا جائے جو توانائی تک محدود رسائی رکھتے ہیں۔ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے چیلنجز، قابل تجدید توانائی کی انضمام اور تجارتی ٹیرف کے مسائل سے نمٹنے کے لئے ایک مربوط اور تعاون پر مبنی علاقائی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ایسوسی ایشن برائے علاقائی تعاون کو موسمیاتی تبدیلی کے ایجنڈے پر دوبارہ منظم کر کے اسے جنوبی ایشیا کی موسمیاتی تبدیلی کی مزاحمت کا نام دیا جائے۔ انہوں نے علاقائی کاربن مارکیٹس، علاقائی کلین انرجی پلیٹ فارمز،
اور جدید علاقائی مالیاتی میکانزم کی ضرورت پر بھی زور دیا۔سینٹرل ایشیا ریجنل اکنامک کوآپریشن کے سینئر ریسرچ اسپیشلسٹ ڈاکٹر غلام صمد نے افغانستان میں سیکیورٹی کی بدلتی ہوئی صورتحال مختلف چیلنجز کی نشاندہی کی اور ان چیلنجز کو حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا تاکہ مزید مالی نقصانات سے بچا جا سکے۔ایس اے اے آر سی انرجی سینٹر کے ریسرچ فیلو، احسن جاوید نے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کو غیرمرکزی بنانے، گرڈ استحکام کے لئے بیٹری اسٹوریج کے حل کو نافذ کرنے، اور فوسل فیولز پر انحصار کو کم کرنے کے لئے نقل و حمل کی بجلی کی ضرورت پر زور دیا۔الائنس فار رورل الیکٹریفیکیشن (ARE) کے جنوبی ایشیا کے علاقائی پروگرام ماہر، شوکت علی نے دیہی علاقوں کو غیرمرکزی کرنے کے ذریعے بجلی کی فراہمی کے لئے پالیسیوں کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے 95% دیہی بجلی کی کوریج حاصل کرنے میں بھارت کی کامیابی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ دیگر ممالک کو بھی اسی طرح کا راستہ اپنانا چاہئے۔انہوں نے پالیسی سازی میں قابل تجدید توانائی کو ترجیح دینے، دیہی بجلی کی فراہمی پر توجہ مرکوز کرنے، اور ریاستوں کے درمیان سیاسی ہم آہنگی کو یقینی بنانے کی تجویز دی تاکہ علاقائی توانائی کی تجارت کو فروغ دیا جا سکے۔