بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے سربراہ راجی راہشون فرزنِد بلوچستان رکن صوبائی اسمبلی واجہ میر اسد اللہ بلوچ اپنے ایک بیان میں کہا کہ حکومت وقت کو حالات اور واقعات کا ادراک کرتے ہوئے طاقت کا استعمال کی بجائے سنجیدگی اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اگر اس ملک میں جمہوریت ہے تو جمہوری تقاضوں پر عمل پیرا ہوکر آئین و قانون کی پاسداری کرنی چائیے۔ آئین کی شق نمبر 14 اور 19 میں واضح ہے کہ سیاسی اور جمہوری اظہار رائے پر کوئی پابندی نہیں ہے گوادر میں ایک پرامن جلسہ کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سے حکومت وقت خوف ذدہ اور پریشان کیوں ہے ہمیشہ غیر سنجیدگی اور طاقت کے استعمال سے حالات کنٹرول سے باہر ہوئے ہیں۔ فرسٹ ورلڈ وار میں غیر سنجیدگی اور چوٹی سے غلطی نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور سیکنڈ ورلڈ وار نے 41 سے 45 تک پوری دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ اور کروڑوں لوگ مارے گئے یہاں ایک چھوٹی سی غلطی اتنی بڑی نقصان کا سبب بن سکتا جو کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ پولیس بھی اپنے دائرہ میں رہتے ہوئے ۔
ایسے کسی آڈار کو فولو نہ کرے جس سے خون خرابہ کا اندیشہ ہو ایک جمہوری عمل روکنے کے خاطر حالات سے ایسا لگ رہا ہے جسے کوئی دوسرا ملک یلغار کر رہا ہو۔ حکومت اور حاکم وقت کو یہ احساس نہیں کہ اگر طاقت کا استعمال کیا گیا تو یہ کتنی بڑی غلطی ہوسکتی ہے۔ کیا ملک میں مارشل لاء ہے۔ آیا ملک میں ایمرجنسی لگی ہوئی ہے۔ آیا آئین کو معطل کیا گیا ہے ۔ یہ تمام حالات اور واقعات ایک غیر یقینی کیفیت کی طرف جا رہے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ محمد ہاشم کاکڑ، فوری طور پر نوٹس لے۔ اور غیر آئینی اقدامات سے حکمرانوں کو روکیں ۔ بی این پی عوامی کا مطالبہ ہے کہ تمام کنٹنرز کو راستوں سے ہٹا کر لیویز اور پولیس دونوں بلوچستان کے شہری ہیں۔ انکو لڑانا بند کیا جائے۔ مستونگ اور دیگر علاقوں میں جہاں کوئی جلسہ گاہ جانے والے قافلوں پر فائرنگ ہوئی ہے زخمیوں کے علاج کا بندوبست کیا جائے۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی از خود سوموٹو نوٹس لے یہ عجیب منطق ہے کہ حکومت کی جانب سے از خود روڈ بلاک کرکے عوام کو اذیت دی جارہی ہے۔ شعوری وسع النظر ہو کر۔ برداشت کا مادہ پیدا کیا جائے۔ اگر طاقت کا استعمال کیا گیا تو یہ ایک غیر سنجیدہ عمل ہوگا۔ کوئی بھی خون خرابہ ہوا
تو حکومت کے خلاف نفرت بڑھے گی۔ اس وقت حکومت کے لئے ایک سوال ہے کہ وہ جواب سنجیدگی سے دے۔ ایک بلوچستان کی بیٹی جو نہ نواب ہے نہ سردار ہے نہ زاردار ہے اس کی کال پر لاکھوں لوگ کیوں جمع ہو رہے ہیں۔ حکومت کی تمام رکاوٹوں کے باوجود لوگ سراپا احتجاج ہیں کہ ہم گوادر جا رہے ہیں جو کہ ایک فکر کی بات ہے۔ اس طرح غلطی کے اوپر غلطی کے بجائے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ آج پوری دنیا میں جمہوری پر امن جدوجہد ہو رہی ہے۔ امریکہ کی یونیورسٹیوں سمیت پورے دنیا میں فلسطین کے حق میں مظاہرہ ہورہے ہیں وہاں کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اس لئے حکمران اور حکومت وقت جذباتی ہو کر طاقت کے استعمال اور غیر آئینی اقدامات سے گریز کریں۔ اس وقت 24 گھنٹوں میں جو حالات اور واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ وہ مکمل حکومت کے خلاف جارہی ہیں، بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے سیاسی مسئلہ کو دلیل اور ڈائیلاگ کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے بار بار کوشش کی جائے۔ بندق کی نوک سے نکلنے والی ہر گولی انتشار اور نفرت کا سبب بن سکتا ہے اور قلم کی نوک اور ٹیبل ٹاک نے ہمیشہ امن کا راستہ دکھایا ہے۔ایل بی این