چین کی 3 بڑی پاور کمپنیوں نے کیپسٹی چارجز پر نظرثانی سے انکار کردیا
پاکستانی ٹیم سی پیک اور نیو کلیئر پاور پلانٹس کے پروجیکٹس سے متعلق لیے گئے قرضوں کی معیاد بڑھانے اور ان قرضوں پر سود کی شرح کم کرانے کیلیے بیجنگ گئی ہے تاہم چین کی 3 بڑی پاور کمپنیوں نے بجلی خریداری معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔
ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق تین چینی کمپنیوں کے نمائندوں نے کہا کہ انرجی پر لئے گئے قرضے کو ری اسٹرکچر کرنے کا فیصلہ چینی بینکوں اور پاکستانی حکام کے درمیان ہونا چائیے.کمپنیوں کے نمائندوں نے اپنے منافع اور کیپیسٹی پیمنٹ کی ان شرائط وضوابط میں کسی تبدیلی کے امکان کو مسترد کر دیا ہے جن پر پاور پرچیز ایگریمنٹ کے تحت اتفاق ہوا تھا۔ادھر پاکستانی وزیر خزانہ اورنگزیب چینی حکام سے ملاقات کیلئے روانہ ہو گئے تاکہ اس قرض کی دوبارہ واپسی کی مدت میں توسیع کرا سکیں۔
آئی پی پیز 40 بڑے خاندانوں کی ملکیت ہیں، بجلی کی اصل قیمت تیس (30) لیکن 60 روپے وصول کی جارہی ہے .واضح رہے کہ یہ وہ قرض تھا جو حکومت پاکستان اور چینی کمپنیوں نے پاور پلانٹ نصب کرنے کیلئے چینی مالیاتی اداروں سے لیا تھا۔ پاکستان نے نیو کلیئر پاور پلانٹس لگانے کیلئے اور چینی کمپنیوں نے سی پیک کے تحت پاور پلانٹس لگانے کیلئے قرض لیا تھا۔پاکستان نے نیوکلیئر پاور پلانٹس لگانے کے لیے قرض لیا تھا جبکہ چینی کمپنیوں نے یہ قرضے سی پیک کے تحت لگائے جانیوالے پاور پلانٹس کیلئے لئے تھے۔ پاور ڈویژن کے ایک اہلکار نے بتایا کہ جوہری پلانٹس اور سی پیک توانائی کے منصوبوں دونوں کیلئے بقایا قرض کی تخمینہ مالیت تقریباً سترہ (17) ارب ڈالر ہے۔وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق پاکستان نے توانائی کے قرضوں کی ادائیگی میں آٹھ سال تک توسیع، قرض دینے والی کرنسی کو امریکی ڈالر سے چینی یوآن میں تبدیل کرنے اور شرح سود میں کمی کی تجویز تیار کی ہے۔
اگر چینی حکام ان تجاویز کو قبول کرتے ہیں تو ان مراعات کا مجموعی اثر قیمتوں میں چھ سے ساتھ روپے فی یونٹ کمی کے قریب ہو سکتا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ صرف چینی پاور پلانٹس کا اثر تیس سے چار روپے فی یونٹ ہے۔رواں مالی سال میں پاکستان بیجنگ کو دو ارب ڈالر سے زیادہ کے توانائی کے قرضوں کی ادائیگی کرنیوالا ہے، جسے وہ مشکل وقت میں ریلیف حاصل کرنےکیلئے ملتوی کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان نے چین کے قرضوں سے ایٹمی بجلی گھر بھی لگائے ہیں اور اس میں توسیع کا خواہاں ہے۔حکومت نے جولائی سے بجلی کی نئی اوسط قیمت 33 روپے فی یونٹ کا نوٹیفکیشن کیا اور اس میں سے اٹھارہ(18) روپے فی یونٹ سے زائد ادائیگیوں کی وجہ سے تھی۔