مقروض ملک کی اشرافیہ کے اخراجات کتنے ہیں؟جان کر آپکے ہوش اڑ جائینگے
انتخابات سے قبل عوام کو سنہرے خواب دکھانے والے موجودہ حکومت نے بجٹ پیش کرکے نہ صرف ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا بلکہ اشرافیہ کو نواز کر عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی جارہی ہے۔اگر اس مقروض ملک کے اشرافیہ پر خرچ کی جانے والی خطیر رقم کا ذکر کی جائے تو سننے والے اپنے ہوش کھو بیٹھیں۔
اس حوالے سےنجی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں میزبان ماریہ میمن نے ملکی معیشت کی بڑی رقم اشرافیہ پر خرچ کرنے سے متعلق یو این ڈی پی کی رپورٹ کے ہوشربا نکات بیان کئے۔انہوں نے بتایا کہ سال 2021میں جاری کی جانے والی یو این ڈی پی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کے 17.4 ارب ڈالر اشرافیہ کی مراعات پر خرچ کئے جارہے ہیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جاگیردار، سیاسی طبقہ ،کارپوریٹ سیکٹر اور اسٹیبلشمنٹ سمیت پاکستان کی اشرافیہ کو دی جانے والی معاشی مراعات ملکی معیشت کا6 فیصد ہے جو تقریباً 17.4ارب ڈالر بنتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ مراعات کا سب سے بڑا فائدہ کارپوریٹ سیکٹر اٹھاتا ہے، تخمینہ کے مطابق اس نے چار اعشاریہ سات ارب ڈالر کی مراعات حاصل کیں.
اسکے بعد دوسرے نمبر پر مراعات حاصل کرنیوالا ملک کا 1 فی صد امیر ترین طبقہ ہے جو ملک کی مجموعی آمدن کا 9 فی صد کا مالک ہے، جب کہ تیسرے نمبر پر جاگیر دار اور بڑے زمیندار جو ملک کی ایک عشاریہ ایک فیصد آبادی ہے لیکن ملک کی بائیس فیصد قابل کاشت زمین کی مالک ہے۔ملک کے غریب ترین 1فیصد کی آمدن صرف 0.15فیصد ہے، مجموعی طور پر بیس(20)فی صد امیر ترین لوگوں کےپاس قومی آمدنی کا 49.6فیصد ہے جبکہ بیس (20) فیصد غریب ترین آبادی کے پاس قومی آمدنی کا صرف 7 فیصد ہے۔
ملک کا متوسط طبقہ سکڑ رہا ہے، یو این ڈی پی کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ متوسط آمدنی والے افراد 2009سے اب تک آبادی کے 42فیصد سے کم ہوکر 2019میں 36فیصد رہ گئے ہیں یو این ڈی پی رپورٹ کے مطابق پاکستانی پارلیمنٹ میں دونوں طبقوں کی مضبوط نمائندگی ہے، بیشتر بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔۔پاکستان میں یو این ڈی پی کی نمائندہ ایلیونا نیکولیتا کا کہنا ہے کہ غریب اور امیر ترین پاکستانی دو الگ ممالک میں رہتے ہیں کیوں کہ دونوں کے معیار زندگی ایک دوسرے سے بہت علیحدہ اور مختلف ہیں۔اسکے علاوہ آئی ایم ایف کی سربراہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ ہم نے ہمیشہ غریبوں کے بجائے امیروں پر ٹیکس لگانے کی بات کی ہے، لیکن وہ لگاتے ہی غریبوں پر ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اشرافیہ کو دی گئی بے پناہ مراعات کے ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہونگے