اسلام آباد: بیلٹ اینڈ روڈ انویسٹمنٹ فورم کا اعلیٰ سطحی پالیسی ڈائیلاگ جمعرات کے روز اسلام آباد میں ہوا. اعلیٰ سطحی پالیسی ڈائیلاگ میں وزراء، پڑوسی ممالک کے سفارت کاروں، سرکاری افسران، ماہرین اور نجی شعبے کے رہنماؤں کو اکٹھا کیا گا۔وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے شرکت کی. اسکے علاوہ پاکستان میں مقیم چین، سعودی عرب، ترکی، قازقستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے سفیروں نے شرکت کی۔ ریٹائرڈ سفیر نغمانہ ہاشمی، جو چین میں پاکستان کی سابقہ سفیر رہی ہیں، اجلاس کے شرکاء میں شامل تھیں۔
بیلٹ اینڈ روڈ انویسٹمنٹ فورم پرائیویٹ سیکٹر کی قیادت میں پہلا علاقائی اقتصادی فورم ہے۔ وزارت منصوبہ بندی کی مشاورت سے پاکستان میں چین کے سفارت خانے نے مشترکہ طور پر اس فورم کی میزبانی کی ۔اعلیٰ سطحی ڈائیلاگ میں 1 بلین امریکی ڈالر کے مشترکہ منصوبے کے فنڈ کے قیام، علاقائی اقتصادی زون کے قیام اور علاقائی منڈی کے لیے ادارہ جاتی ڈھانچے کی تعمیر جیسے منصوبوں پر بحث ہوئ۔ یہ فورم اعلیٰ پیشہ ورانہ مشاورتی اور علمی پلیٹ فارم ہے تاکہ کثیر جہتی نجی سرمایہ کاری کو آسان بنایا جا سکے۔ اس سے علاقائی مارکیٹ کی مشترکہ تفہیم کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔
ہارون شریف، سینئر فیلو بیلٹ اینڈ روڈ انوسٹمنٹ فورم نے کہا کہ یہ فورم ہمارے لیے رائزنگ ایشیا کی صورت میں عالمی اکانومی میں حصہ لینے کا بڑا موقع ہے۔ ایشیا کا کنیکٹیویٹی انفراسٹرکچر بہت اچھا ہے لیکن اس کے ذریعے نجی سرمائے کو راغب کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ فورم اس بات پر غور کرے گا کہ اس خطے میں نجی سرمایہ کو کیسے راغب کیا جائے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے فورم میں شرکت کرنے پر دوست علاقائی ممالک کے تمام سفیروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بروقت اقدام ہے۔ دنیا ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہی ہے۔ 2000 میں عالمی جی ڈی پی میں ایشیا کا حصہ 13 فیصد تھا۔ پچھلے سال یہ 35 فیصد تھا۔ 2035 تک عالمی جی ڈی پی میں ایشیا کا حصہ 50 فیصد ہو جائے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں اس خطے کو امن، استحکام اور خوشحالی کا گڑھ بنانا ہے۔ سی پیک بیلٹ اینڈ روڈ کے فلیگ شپ منصوبوں میں سے ایک تھا۔ پاکستان کو بہت بڑا مقامی فائدہ ہے۔ جنوبی ایشیا، چین، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان اہم روابط پیدا کرنے ہونگے۔ پاکستان شمالی، جنوبی اور مشرقی کنیکٹیوٹی کاریڈور بنا سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سی پیک کے پہلے مرحلے کے تحت ہم نے بڑے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے بنائے۔ نیشنل گرڈ میں 8000 میگاواٹ بجلی شامل کی۔ تھر کوئلہ پاکستان کا سب سے قیمتی وسیلہ ہے جس کی توانائی سعودی تیل کے برابر ہے۔ بدقسمتی سے 2018 کے بعد توازن برقرار نہیں رکھا جا سکا۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک فیز 1 انفراسٹرکچر کے بارے میں تھا۔ یہ انفراسٹرکچر سڑک، بجلی اور بندرگاہوں پر مبنی تھا ۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ اس بنیادی انفراسٹرکچر سے سرمایہ کاری راغب کرنے سے متعلق ہوگا۔
اعلیٰ سطحی پالیسی ڈائیلاگ کے منتظمین نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری BRI کے تحت چھ اہم راہداریوں میں سے ایک ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران 35 بلین ڈالر سے زیادہ کی فنانسنگ کے ساتھ، سی پیک نے پاکستان کے جنوب میں گوادر بندرگاہ کو کامیابی کے ساتھ تبدیل کر دیا ہے، کئی پاور پلانٹس بنائے ہیں اور پاکستان کو مغربی چین میں کاشغر سے سڑک کے ذریعے منسلک کیا ہے۔ اس کے علاوہ چینی اور دیگر سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے چار اقتصادی زون قائم کیے جا رہے ہیں۔ BRI کے اگلے دس سال یہ دیکھنے کے لیے اہم ہوں گے کہ کنیکٹیویٹی انفراسٹرکچر سے فائدہ اٹھانے کے لیے ممالک نجی سرمایہ کاری کو کس طرح راغب کرنے کا انتظام کرتے ہیں۔