بلوچستان میں ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال کے پیچھے خفیہ محرکات
گزشتہ چند ماہ سے حکومت پاکستان کی جانب سے اسمگلنگ مافیا کے تدارک اور صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، جس کے حوالے سے پاکستان اور ایران دونوں ممالک کے درمیان مختلف معاہدوں پر ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران دستخط بھی کیے گئے، جن میں بلوچستان میں مزید چیک پوسٹوں کا قیام شامل ہے۔ چیک پوسٹوں کے قیام کا عمل سامنے آتے ہی بلوچستان میں ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن نے ہڑتال کا اعلان کردیا جو کہ گزشتہ دس دن سے جاری ہے۔ آئیے جانتے ہیں اس حوالے سے مزید تفصیلات:
سیکورٹی اداروں کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ایران سے ہونے والی سمگلنگ سے قومی خزانے کو سالانہ 227 بلین ڈالرز کا نقصان پہنچتا ہے، قومی خزانے کے اس استحصال میں اب تک کے اعدادوشمار کے مطابق 533 پیٹرول پمپس اور 105 سے زائد افراد شامل ہیں۔
امریکہ کو پاکستان میں فوجی اڈے دینے کی خبروں پر دفتر خارجہ کی وضاحت جاری
اب جب اس اسمگلنگ مافیا کے گرد گھیرا تنگ ہونا شروع ہوا ہے تو ان کی چیخیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں جس میں مختلف سیاسی و شرپسند عناصر نے بھی ان کا ساتھ دینا شروع کر دیا ہے۔
حقیقت میں چیک پوسٹوں کا قیام سفر کو مزید محفوظ بناتا ہے اور حالیہ دنوں میں ہونے والے نوشکی جیسے حادثے جہاں 9 مزدوروں کو بس سے اتار کر بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا ان کے تدارک کے لیے ہے مگر اس حوالے سے ٹرانسپورٹرز اور سیاسی مافیا کا احتجاج یہ ثابت کرتا ہے کہ اسمگلنگ میں ان تمام عناصر کی ملی بھگت شامل ہے اور یہ نہیں چاہتے کہ اسمگلنگ کو روکا جائے۔ اسمگلنگ اور دہشت گردی کی ان کاروائیوں میں پورے کا پورے غیر قانونی گروہ شامل ہیں جنہیں چند موسمی سیاستدانوں کی مکمل حمایت حاصل ہے،
جو گاہے بگاہے حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش میں اس طرح کے اقدامات اٹھاتے رہتے ہیں جو حکومت کے ساتھ ساتھ عام بلوچ عوام کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔پاکستان میں حالیہ دنوں میں انتخابات ہوئے ہیں اور جو سیاسی عناصر انتخابات میں ناکام ہوئے وہ حکومت پر کیچڑ اچھالنے کے لیے ان اسمگلنگ میں ملوث عناصر کی پشت پناہی میں مصروف ہیں تاکہ اپنی مردہ سیاست کو کسی طرح زندہ رکھ سکیں، جب کہ کچھ ایسے ایسے سیاسی عناصر بھی موجود ہیں جو کہ اسمبلیوں میں موجود ہیں مگر ان کی سیاست کا دارومدار ان اسمگلنگ میں ملوث مافیا پر ہوتا ہے جن کی حمایت اور مالی مدد کی بنا پر یہ لوگ اسمبلیوں تک پہنچے ہوتے ہیں اور جب ان غیر قانونی مافیا کے خلاف گرفت مضبوط ہونا شروع ہوتی ہے تو یہ لوگ واویلا شروع کردیتے ہیں، جس میں سب سے بڑی مثال گوادر کی حق دو تحریک کے مولانا ہدایت الرحمان ہیں، جو گوادر میں ہر قسم کے غیر قانونی کاروبار کے سرغنہ کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں اور بلوچستان اسمبلی میں بھی موجود ہیں۔
مگر حکومت فیصلہ کر چکی ہے کہ دہشت گردی اور اسمگلنگ جیسے جرائم جو ریاست پاکستان کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ان کا تدارک کیا جائے گا اور ان کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھا جائے گا۔
یہاں پر ایک سوال اس ٹرانسپورٹ مافیا اور سیاسی عناصر پر بھی اٹھتا ہے کہ اگر آپ اسمگلنگ اور دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں تو آپ کو چیک پوسٹوں سے کس بات کا ڈر ہے؟
اساتذہ نے طلبا کے لیے کلاس کو سوئمنگ پول میں بدل دیا، ویڈیو وائرل