نوشکی واقعے میں کیا ہوا؟ خواتین کے قریب بیٹھنے سے جان بچی، عینی شاہد
خواتین کے قریب بیٹھا تھا، اس لیے جان بچ گئی نوشکی میں عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟مسلح افراد نے بس میں داخل ہوتے ہی شناخت پوچھی اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو کھڑا ہونے کو کہا۔ ہم سمجھے کہ کوئی چور ڈاکو ہیں لوٹ مار کریں گے، موبائل وغیرہ لے جائیں گے اور کوئی تھپڑ ماریں گے لیکن چھوڑ دیں گے، ہمیں کیا پتہ تھا کہ سب کو گولیاں مار دیں گے۔یہ الفاظ لاہور کے رہائشی طارق حسین کے ہیں جو اس بس میں سوار تھے جس کے نو مسافروں کو نامعلوم افراد نے بلوچستان کے ضلع نوشکی میں اغوا کے بعد گولیاں مار کر قتل کردیا۔طارق حسین قتل ہونےوالے ان افراد کے ہمراہ کوئٹہ سے تفتان کے راستے ایران جارہے تھے۔
سول ہسپتال کوئٹہ میں انہوں نے بتایا کہ ہم جمعے کی شام کو کوئٹہ سے نکلے۔ ایک پل کے قریب پہلے ایک آدمی نے گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا لیکن ڈرائیور نے بس نہیں روکی لیکن کچھ فاصلے پر کچھ اور مسلح افراد کھڑے تھے جنہوں نے بس روکی اور ان میں سے دو افراد اندر داخل ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ مسلح افراد نے داخل ہوتے ہی پوچھا کہ تم میں سے کون کون پنجاب سے ہے؟ میں اگلی نشستوں پر بیٹھا ہوا تھا مجھ سے آگے ایک فیملی بیٹھی تھی جن کے ہمراہ خواتین اور ایک بچہ بھی تھا۔ ان کا تعلق بھی پنجاب سے تھا۔ مسلح افراد نے فیملی کا حصہ سمجھ کر مجھے بھی کچھ نہیں کہا اور بس کی پچھلی جانب گئے جہاں نوجوان لیٹے ہوئے تھے۔طارق حسین کے مطابق مسلح افراد نے پنجاب سے ان کے تعلق کی تصدیق کی اور پھر انہیں نیچے اتار کر لے گئے۔ بس ڈرائیور کو کہا کہ جلدی سے یہاں سے نکلو۔ان کے بقول میں سمجھا کہ یہ کوئی چور یا ڈاکو ہیں جوموبائل وغیرہ چھینیں گے، شاید کوئی تھپڑ ماریں گے
اور چھوڑ دیں گے۔ ہم نے کون سا کوئی غلط کام کیا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ سب کو بے دردی سے مار دیا گیا ہے۔عینی شاہد زاہد عمران بھی اس بس میں سوار تھے وہ خود تو بچ گئے لیکن ان کے گاﺅ ں کے چھ افراد اس واقعہ میں مارے گئے۔زاہد عمران اپنے ساتھیوں کی میتوں کے ہمراہ نوشکی سے سول ہسپتال کوئٹہ پہنچے تو صدمے سے بے حال نظر آرہے تھے۔انہوں نے بتایا کہ منڈی بہا ﺅ الدین چک فتح شاہ کے ہم سات لوگ تھے۔ ہم سب ایک ساتھ گاﺅ ں سے نکلے تھے وہ سب مارے گئے لیکن میں بچ گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم عید سے کچھ دن پہلے اپنے گھروں سے نکلے تھے تاکہ ایران جاکر محنت مزدوری کرسکیں۔ گاﺅں میں اتنی مزدوری نہیں ملتی۔ میں خود رنگ کا کام کرتا ہوں، ہمارے ساتھ دو اورلوگ مستری کا کام جانتے تھے اس لیے بیرون ملک جانے کا فیصلہ کیا۔واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے زاہد عمران نے بتایا کہ بس میں 40کے لگ بھگ افراد سوار تھے ان میں 30کے لگ بھگ کا تعلق پنجاب سے تھا۔ 19 افراد کا ایک زائرین کا گروپ بھی تھا جن کے ساتھ خواتین بھی تھیں۔ کچھ مقامی لوگ بھی سوار تھے۔زاہد کے مطابق دو مسلح افراد بس میں چڑھے۔ پہلے برا بھلا کہنا شروع ہوگئے اس کے بعد لوگوں سے شناخت پوچھی، میں خاموش ہی رہا۔ ہمارے آگے پنجاب سے تعلق رکھنے والی فیملی بیٹھی ہوئی تھی جن کے ساتھ خواتین بھی تھیں ان کو مسلح افراد نے کچھ نہیں کہا اور آگے بڑھ گئے۔ میں خواتین کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا ہوا تھا شاید وہ مجھے فیملی کا حصہ سمجھے اس لیے میری جان بھی بچ گئی۔
مریم نواز 500 سے 800 روپے والا لان کا جوڑا پہنتی ہیں:عظمیٰ بخاری