وفاقی وزیر بحری امور کا نیلی معیشت کے فروغ اور علاقائی رابطوں کے ذریعے ترقی کا عزم

وفاقی وزیر بحری امور کا نیلی معیشت کے فروغ اور علاقائی رابطوں کے ذریعے ترقی کا عزم

وفاقی وزیرِ بحری امور محمد جنید انور چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کا بحری شعبہ ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے، جہاں ملک خطے میں تجارت اور رابطوں کا مرکز بننے کی سمت گامزن ہے، جس سے نیلی معیشت (Blue Economy) کے فروغ میں نمایاں اضافہ ہوگا۔

اسلام آباد میں منعقدہ ریجنل ٹرانسپورٹ منسٹرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنید چوہدری نے کہا کہ پاکستان وسط ایشیائی ممالک، خلیجی تعاون کونسل (GCC) اور مشرقی افریقی ریاستوں کے ساتھ بحری تعاون اور تجارتی راستوں کی توسیع کے لیے اشتراک کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم اپنی نصف صلاحیت پر کام کر رہے ہیں، جو علاقائی شراکت داروں کے لیے وسیع امکانات فراہم کرتے ہیں۔ گوادر پورٹ جدید ٹرانس شپمنٹ سہولیات سے آراستہ ہے اور علاقائی انضمام میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

وفاقی وزیر نے پیش گوئی کی کہ پاکستان کی معیشت 2035 تک ایک کھرب امریکی ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، جبکہ تجارتی حجم 250 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ترقی کے اس سفر کو سہارا دینے کے لیے پاکستان نے مصنوعی ذہانت سے چلنے والا جدید پورٹ کمیونٹی سسٹم متعارف کرایا ہے، جبکہ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (PNSC) 2026 کے وسط تک اپنے جہازوں کی تعداد 30 تک بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے، جو ملکی جی ڈی پی میں دو فیصد تک کردار ادا کرے گی۔

جنید چوہدری نے گڈانی شپ ری سائیکلنگ یارڈ کی بحالی اور پورٹ قاسم میں انٹیگریٹڈ میری ٹائم انڈسٹریل کمپلیکس کے قیام کو پاکستان کے بحری مستقبل کے لیے “گیم چینجر” قرار دیا۔ انہوں نے علاقائی ممالک کے وزرائے ٹرانسپورٹ کو پاکستانی بندرگاہوں کے دورے کی دعوت دی تاکہ وہ یہاں جاری انفراسٹرکچر اور لاجسٹکس میں پیش رفت کا مشاہدہ کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ علاقائی بحری تعاون اور نیلی معیشت کے موضوع پر منعقدہ اجلاس میں 26 ممالک کے ماہرین اور پالیسی سازوں نے شرکت کی، جہاں سمندروں کو ترقی اور پائیداری کے انجن کے طور پر پیش کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہمارے سمندر رکاوٹ نہیں بلکہ پل ہیں جو خطوں کو جوڑتے ہیں۔”

وفاقی وزیر نے اقوامِ متحدہ کے 2030 ایجنڈا سے پاکستان کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ نیلی معیشت کی حکمتِ عملی کا مقصد بحیرہ عرب کو خلیج، وسط ایشیا، مشرقی افریقہ اور جنوبی ایشیا سے جوڑنا ہے تاکہ اس خطے کو خوشحالی کی راہداری بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی 1,046 کلومیٹر ساحلی پٹی اور 2,90,000 مربع کلومیٹر پر محیط خصوصی معاشی زون (EEZ) بے پناہ امکانات رکھتے ہیں، اور حکومت کا ہدف ہے کہ 2035 تک بحری شعبے کا جی ڈی پی میں حصہ 0.8 فیصد سے بڑھا کر 2 فیصد تک لایا جائے۔

اپنے 10 سالہ میری ٹائم وژن کا خاکہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2035 تک پاکستان ایک عالمی معیار کا پائیدار اور مسابقتی بحری شعبہ قائم کرے گا — جس میں PNSC کا بیڑہ 80 جہازوں تک بڑھایا جائے گا، بندرگاہوں کو ڈیجیٹلائز کیا جائے گا، اور شپ بلڈنگ، ماہی گیری اور ساحلی سیاحت کو فروغ دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ کراچی پورٹ پاکستان کی سب سے بڑی تجارتی بندرگاہ، پورٹ قاسم دنیا کی جدید ترین بندرگاہوں میں سے ایک، اور گوادر پورٹ ایک ابھرتا ہوا علاقائی مرکز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سڑک اور ریل رابطوں کو 2028 تک مکمل کیا جائے گا، جبکہ 2030 تک گوادر کو کارگو ٹرانزٹ میں مرکزی کردار حاصل ہوگا۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ بندرگاہوں کے ماسٹر پلانز کو بین الاقوامی ماہرین کی مدد سے اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے تاکہ انہیں عالمی معیار کے مطابق بنایا جا سکے۔ ان کے مطابق گوادر کا نیا بین الاقوامی ایئرپورٹ بندرگاہ کو انرجی، فائبر اور آئی ٹی کنیکٹیویٹی کے لیے ایک علاقائی گیٹ وے میں بدل دے گا۔

اپنی تقریر کے اختتام پر جنید انور چوہدری نے کہا کہ پاکستان کا بحری سفر “امکانات سے پیش رفت اور انضمام” کی جانب ایک تاریخی تبدیلی ہے، جو اس عزم کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اپنے سمندروں کو خوشحالی کے پلوں میں بدلنے کے لیے پرعزم ہے۔

کانفرنس میں 22 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی جن میں روس، بیلاروس، سری لنکا، مالدیپ، ترکمانستان، ایران، قازقستان، ترکی، ازبکستان، آذربائیجان اور سعودی عرب کے وزرائے ٹرانسپورٹ شامل تھے، جبکہ ای سی او، آئی آر یو، ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB)، اقوامِ متحدہ کے روڈ سیفٹی پروگرام، اور اسلامی ترقیاتی بینک (IsDB) کے وفود بھی شریک ہوئے۔

Author

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.