لاکھوں کےسنہری ہاتھ
میں نہیں جانتی اس واقعہ کو کیا نام دیا جائے لیکن یہ ایک طاقتور سوشل میڈیا مہم اور شاید افسوسناک واقعہ ہے. جو سوشل میڈیا کے اثارت ، پالیسی کا فقدان، فیصلہ لینے کا فقدان ، فن و ثقافت سے دوری، اور جمالیاتی فہم کی کمی کو اجاگر کرتا ہے۔ یہاں اس واقعے کو ایک “کڑورں کےسنہری ہاتھ” کے انداز میں لکھا گیا ہے، جو آپ ویڈیو، بلاگ یا سوشل میڈیا پوسٹ میں استعمال کر سکتے ہیں:
اسلام آباد کے سیکٹر D-12 میں رواں ہفتے اتوار کے دن نصب ہونے والے”Golden Hands” یعنی سنہری ہاتھ کا آرٹ ماڈل، جسے لاکھوں روپے کی لاگت سے ایک نجی کمپنی نے CSR یعنی کارپوریٹ سوشل رسپانسیبلٹی کے تحت تخلیق کیا تھا. پیر کی شام اس نمونے کو یہاں سے منتقل کرنے کا کام شروع کر دیا گیا… کہاں اور کس لیے… اس کا جواب معاشرے کو تلاش کرنا ہو گا.
سنہری ہاتھ : یہ کیا تھا؟
“گولڈن ہینڈز” ایک علامتی مجسمہ تھا — دو سنہری ہاتھ جو ہوا میں بلند ہو کر زمین سنبھال رہے تھے. شاید یہ پیغام دیتے کہ اللہ کی تخلیق کردہ یہ زمین ایک امانت ہے ۔ جس کی حفاظت ہم سب پہ واجب ہے . یہ ماڈل نہ صرف ایک تخلیقی شاہکار تھا، بلکہ شہری خوبصورتی کی ایک نئی کوشش بھی۔ لوگ آتے، تصویریں کھنچواتے، سیلفیز لیتے، اور اسے ایک نیا “انسٹاگرام اسپاٹ” کہہ رہے تھے۔
عوام کا ردعمل:
چند گھنٹوں میں ماڈل کی تصاویر وائرل ہو گئیں۔ ٹیوٹر پوسٹز سے بھر گیا.
https://x.com/pakistanwalli/status/1944819317239112048
شہریوں کی بڑی تعداد نے اسے پسند کیا ، بہت سو نے تنقید کی اور کچھ نے سراہا۔
https://x.com/ttimagazine/status/1945015908331647143
نوجوان طبقے نے اسے “آرٹ فر پیس” کہا۔
https://x.com/ARazaRiz90/status/1944684323501965739
مگر پھر کیا ہوا؟
کچھ صارفین نے سوشل میڈیا پر ماڈل کا مذاق اڑانا شروع کیا۔
یہ کس کا وژن ہے ؟ اس کا کیا مقصد ہے؟
تنقید کے طوفان ، طنزیہ میمز، سیاسی جملے، مزاحیہ تبصرے، اور نظریاتی فقدان نے ماحول کو بگاڑ دیا۔
* بغیر کسی باقاعدہ وضاحت یا دفاع کے، سی ڈی نے کپڑا ڈالا اور بھر مسمار کر دیا.
لیکن سوالات جو باقی رہ گئے:
کیا حکومت کو سوشل میڈیا دباؤ پر بغیر تحقیق ایک آرٹ ورک کو ہٹانا چاہیے تھا؟
کیا پبلک آرٹ اور CSR پروجیکٹس کی حفاظت کے لیے کوئی پالیسی موجود ہے؟
اگر یہی ماڈل کسی اور ملک میں ہوتا، تو کیا اسے بھی اسی طرح ہٹایا جاتا؟
کیا اس ملک میں جمہوری مکالمے اور شہری آرٹ کی کوئی گنجائش ہے؟
کیا پاکستان میں آرٹ اور تخلیق کا تحفظ ممکن ہے؟
یا سوشل میڈیا کا پریشر ہی پالیسی کا نیا معیار بن چکا ہے؟
میں نے تو باہر بہت ست آرٹ دیکھے ہیں لیکن ہم فن کے جس اعلی درجے پہ ہیںوہ ہم ہی جانتے ہیں.