فتح جنگ: سگے رشتے کا قتل — ایک المیہ، ایک سوال

فتح جنگ: سگے رشتے کا قتل — ایک المیہ، ایک سوال

فتح جنگ: سگے رشتے کا قتل — ایک المیہ، ایک سوال

فتح جنگ جیسے پرسکون شہر کی فضاؤں میں اُس وقت لرزہ طاری ہوگئی جب ڈھوکڑی روڈ پر ایک نوجوان نے چھریوں کے وار سے اپنے سگے والد، 73 سالہ جاوید اختر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ تھانہ فتح جنگ کی حدود میں پیش آنے والے اس اندوہناک واقعے کے بعد، قاتل بیٹا رحیم موقع سے فرار ہو گیا، جب کہ پولیس نے لاش کو اپنی تحویل میں لے کر ٹی ایچ کیو اسپتال منتقل کر دیا ہے۔ ملزم کی تلاش جاری ہے۔

یہ قتل محض ایک فرد کا نہیں بلکہ معاشرتی اقدار، خاندانی رشتوں، اور انسانی اخلاقیات کا قتل ہے۔باپ… جس کی انگلی تھام کر ایک بچہ چلنا سیکھتا ہے، جس کی محنت سے ایک بیٹے کا مستقبل بنتا ہے، جس کی دعاؤں میں ایک بیٹے کی کامیابیاں چھپی ہوتی ہیں — آج اسی باپ کی جان ایک سگے بیٹے کے ہاتھوں چلی گئی۔

سوچیے!

کیا یہ محض ایک اتفاقیہ سانحہ ہے؟ یا ہم بحیثیت قوم کہیں نہ کہیں اپنے خاندانی نظام کو، اپنے جذباتی بندھنوں کو، اور اپنی تربیت کے بنیادی اصولوں کو کھو چکے ہیں؟

یہ صرف جاوید اختر کا قتل نہیں ہے،یہ ہر اُس باپ کی بے بسی کی تصویر ہے جو اپنے بچوں کے بہتر کل کے لیے اپنی آج کی قربانیاں دیتا ہے۔یہ ہر اُس خواب کی موت ہے جو ایک باپ اپنی اولاد کی خوشیوں کے لیے دیکھتا ہے۔یہ ہر اُس ماں کی چیخ ہے جس نے بیٹے کو اپنے خون سے پال کر جوان کیا۔اے نوجوانو! اے والدین! اے معاشرے کے ذمے داران!

آج وقت ہے کہ ہم جاگ جائیں۔

آج وقت ہے کہ ہم گھروں میں محبت، برداشت اور احترام کو دوبارہ زندہ کریں۔ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہر گلی میں ایک جاوید اختر کی لاش پڑی ہوگی اور ہر گھر میں ایک رحیم مجرم پل رہا ہوگا۔پولیس اور عدلیہ سے گزارش ہے کہ قاتل کو جلد از جلد قانون کے شکنجے میں لایا جائے تاکہ مقتول کی روح کو انصاف مل سکے۔اور ہم سب سے گزارش ہے کہ اپنے گھروں میں محبت کے چراغ روشن کریں، ورنہ نفرت کی آگ سب کچھ جلا کر راکھ کر دے گی۔سوچئے، سوال کیجئے، عمل کیجئے!کہیں دیر نہ ہو جائے۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں