9 سالہ شادی کے بعد بیوی کے حق مہر کا تحفظ، لاہور ہائیکورٹ کا شاندار فیصلہ
لاہور ہائیکورٹ نے شوہر کی بدسلوکی کی وجہ سے شادی ٹوٹنے پر خلع لینے والی خاتون کے حق میں اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا حق مہر ختم نہیں ہوتا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس راحیل کامران نے مؤخر شدہ طلاق کے ایک اہم پہلو کو واضح کیا، جس کے تحت شوہر پر حق مہر اس وقت تک واجب رہتا ہے جب تک بیوی نے شوہر کی غلطی کے بغیر خلع نہ مانگا ہو۔
جسٹس راحیل کامران نے اس بات پر بھی زور دیا کہ عدالت میں زیر سماعت کیس میں خاتون نے اپنے شوہر کی جانب سے ظلم اور توہین آمیز رویے کے قابل اعتماد ثبوت پیش کیے، جس کی وجہ سے اسے علیحدگی کی درخواست کرنا پڑی۔ انہوں نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر بیوی اپنے شوہر سے ناپسندیدگی کی بنیاد پر خلع حاصل کرتی ہے تو اسے ملنے والا حق مہر واپس کرنا پڑتا ہے، لیکن اگر خلع کی وجہ شوہر کی غلطی ہے تو بیوی کو پہلے سے وصول شدہ مہر کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس راحیل کامران نے مزید کہا کہ ایسی صورتحال میں عدالت کو کیس کے حالات اور حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ بیوی کو کتنی رقم واپس کرنی چاہیے۔ انہوں نے نکاح نامہ کو ایک معاہدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاہدے کی شرائط پر عمل کرے، جب تک اس میں انحراف کی کوئی قانونی بنیاد نہ ہو۔
جسٹس نے وضاحت کی کہ صرف خلع مانگنے سے شوہر کی ذمہ داری ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس کا تعین اس بات پر منحصر ہے کہ بیوی نے خلع کیوں طلب کی۔ اگر بیوی نے شوہر کی بدسلوکی کی وجہ سے خلع مانگی ہو، تو اس کا حق مہر برقرار رہے گا۔ کیس کے موجودہ حقائق میں بیوی نے شوہر کے ظلم اور توہین آمیز رویے کے الزامات عائد کیے ہیں، اور عدالت نے اسے انصاف دینے کا فیصلہ کیا۔
جسٹس راحیل کامران نے اس بات پر بھی زور دیا کہ چونکہ شادی 9 سال پر محیط تھی اور بیوی نے اپنی ازدواجی ذمہ داریاں پوری کیں، اس لیے مؤخر شدہ مہر کی ادائیگی سے انکار کرنا ناانصافی ہوگا۔