جزا و سزا کا نیا دور! کام نہ کرنیوالوں کو سزا، بہترین کو وزیراعظم ہاؤس میں ایوارڈدیا جائیگا
اسلام آباد:وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ قرضوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے قومی آمدن بڑھاناہوگی،کارکردگی کے حوالے سے مختلف اداروں میں موجود سقم دور کرنا ہوں گے،معاشرے اور اداروں کی بہتری کے لئے جزا اور سزا کے تصور کو اپنانا ہو گا ، ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کے طویل سفر کا آغاز ہو چکا ہے، سرمایہ کار ہمارے سر کا تاج ہیں ، انہیں ہر ممکن سہولیات دیں گے،
عدالتوں میں زیر التواء کھربوں روپے کے ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں ۔ جمعہ کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پر فارمنس مینجمنٹ سسٹم کےافتتاح کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ایف بی آر کے دورہ کے موقع پر ایک سال پہلے کئے گئے ایف بی آر کے نظام کو ڈیجیٹائز کرنے کے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے پور ی ٹیم نے مل کر کاوشیں کیں اور ان بے پناہ کوششوں کی بدولت اس سفر کاآغاز ہو چکا ہے۔ یہ ایک لمباسفر ہے اور راستے میں بڑی رکاوٹیں آئیں گی جن کو اپنے غیر متزلزل عزم کے ساتھ دور کرنا ہے
اور پاکستان کے روشن اور خوشحال مستقبل کے لئے شبانہ روز کوششیں کرنی ہیں، پاکستان کو قرضوں سے نجات دلانی ہے، ا س کا بوجھ آپ لوگوں کے کندھوں پر ہے۔ ہم آپ کے قابل ذہنوں کی بدولت یہ اہداف حاصل کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلہ میں ہمارے ٹیکس محصولات میں 27 فیصد اضافہ قابل ستائش ہے۔ اس کےلئے چیئرمین ایف بی آر اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتےہیں ۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ ایک طویل سفر ہے اور محصولات میں اضافہ بظاہر خوش آئند ہے لیکن مختلف ٹربیونلز یا دیگر عدالتوں میں کھربوں روپے کے مقدمات چل رہے ہیں۔ ان میں سے کئی مقدمات کئی دہائیوں سے چل رہے ہیں۔ ان مقدمات کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔وزیراعظم نے ایف بی آر کے افسران کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک چبھتا سوال ہے کہ ایک طرف ہمارے کھربوں روپے کے کیسز زیر التواء ہیں اور دوسری طرف ہم دن رات قرض لے رہے ہوتے ہیں یا ان کو رول اوور کرارہے ہوتے ہیں۔دوسری طرف انٹرنل ریونیو سروس ، کسٹم ، سیلزٹیکس ، جعلی رسید وں کی دردناک کہانیاں ہم سن چکے ہیں
۔ ہم نے ان کمزوریوں کو دور کرناہے اور انہی چیلنجز کا ہماری حکومت کو سامنا ہے۔ ماضی میں جو ہوا ہمیں اس سے سبق حاصل کرکے تیزی سے ان خامیوں پر قابوپانے کی ضرورت ہے۔ اسی لئے میں آپ کے پاس حاضر ہواہوں ۔ہم نے ایک سال میں اس کے لئے بڑی تگ و دو کی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ چند سال قبل ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم بنایا گیا جس کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ صرف اس کمپنی کی خطاہے یا اس نظام کا مؤثر استعمال نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایک سال میں جو اچھاکام کیاگیا ہے اس پر ہم آپ کو دل کھول کرداد دیتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ آپ کو مزید اچھاکام کرنے کی توفیق دے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر ہم نے قرض سے نجات حاصل کرنی ہے تو ہمیں اپنے محصولات بڑھانا ہوں گے۔اس کے بغیر قرض بڑھتاچلاجائےگااور آئی ایم ایف سے کبھی چھٹکارا نہیں ملےگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایف بی آر کے مختلف شعبوں میں ہمارے نوجوان شاندار کام کررہے ہیں۔
میری یہ استدعاہے کہ محنت کرکے محصولات میں اضافے سے اس قوم کی تقدیر بدلنے کی اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ وزیراعظم نےکہا کہ وہ بینکوں کے ونڈ فال ٹیکس کامعاملہ عدالتوں میں لے کر گئے اور ایف بی آر کے چیئرمین اور اس کی قانونی ٹیم کی وجہ سے 23 ارب روپے قومی خزانے میں واپس آئے تاہم یہ رقم بہت کم ہے ، ہمارے کھربوں روپے کے ایسے مقدمات زیرالتواء ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ قرضوں کی وجہ سے پاکستان کو بہت نقصان پہنچا ہے ، ہمیں اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں بھرپور اندازمیں کرتے ہوئے قرضوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔
وزیراعظم نے کہا کہ انفورسمنٹ کے لئے کسٹمز اور دیگر اداروں میں جدید ٹیکنالوجی کومتعارف کرایا جا رہا ہے۔ یہ چیلنجز سے بھرپور طویل سفر کی شروعات ہے ، ہم نے ان چیلنجز سے نمٹنا ہے ، اس میں اپنے کام میں ماہر لوگوں کا بڑا کردار ہوگا۔ اشیاء کی مس ڈیکلیئریشن سے نجات کاخاطر خواہ انتظام نہیں ہوا، اس پر کام ہو رہا ہےتاہم اس کاحل یہ ہے کہ کنٹینر کو سکینرز سے گزاراجائے۔
سکینر مشینوں کے حصول میں تاخیر مجرمانہ غفلت ہے۔ہم جہاں کھربوں روپے کا نقصان برداشت کررہے ہیں تو کیوں چند کروڑ روپے اس کے لئے خرچ نہیں کررہے، اس کے لئے ہمارے وسائل حاضر ہیں ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم تیزی سے اس منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کے لئے پاکستان معرض وجود میں آیاتھااور جس کے لئے قائد اعظم کی قیادت میں تحریک چلی اور لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں۔ پاکستان کا دنیا میں ضرورت مقام بنے گا اور ابھی بھی تاخیر نہیں ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ تبدیلی کی شروعات ہو چکی ہیں،
انفورسمنٹ پر کام ہو رہا ہے، ٹربیونلز کو پوری طرح ریفار م کیاجارہا ہے، میرٹ پر نئے قابل لوگوں کو بھرتی کیاجا رہا ہے، قابل وکلا ء کی خدمات لی جا رہی ہیں، پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم بہت اچھا ہے ، اس میں مزید بہتری لانی ہے اور دیگر اداروں میں بھی اس کو متعارف کرانا ہے، ایف بی آر کواب اپنی ساکھ بنانا ہو گی۔جزا و سزا کے تصور کو ایف بی آر سمیت تمام اداروں میں فروغ دے رہے ہیں۔جو لوگ اچھا کام کریں گے ان کو عوامی پذیرائی اور مراعات دیں گے،
اس حوالہ سے چیئرمین ایف بی آر نے اچھا فارمیٹ بنایا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اہم خدمات سرانجام دینے والوں کو وزیراعظم ہاؤس بلا کر انہیں شیلڈز اور مانیٹری ایوارڈ دیئے جو ملک بھر کے تمام اداروں کیلئے حوصلہ افزائی ہے۔ اسی طرح جو لوگ کام نہیں کریں گے انہیں سزا ہو گی۔معاشرے سزا اور جزا سے ہی معاشرے بہتر ہوتے ہیں۔ وزیراعظم نے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ وہ ٹیکس ادا کرنے والوں سے اچھا رویہ رکھیں، سرمایہ کار ہمارے سرکا تاج ہیں انہیں عزت اور ہر ممکنہ سہولت دینی ہے، اس سے ہمارے ملک میں سرمایہ آئے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نوٹیفائی کرے گا تاکہ ذاتی پسند و ناپسند کی بجائے کارکردگی کی بنیاد پر ملازمین کو صلہ ملے گا ۔