سرکاری ملازمین کیلئے بری خبر، گریڈ 1 سے 22 تک ہزاروں ملازمتیں خطرے میں

سرکاری ملازمین کیلئے بری خبر، گریڈ 1 سے 22 تک ہزاروں ملازمتیں خطرے میں

سرکاری ملازمین کیلئے بری خبر، گریڈ 1 سے 22 تک ہزاروں ملازمتیں خطرے میں

وفاقی حکومت نے اپنے رائٹ سائزنگ منصوبے کے تحت مختلف محکموں میں 30,968 سرکاری ملازمتوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔کابینہ ڈویژن کے سیکریٹری نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کو بدھ کے روز ان ملازمتوں کی اسکیل وائز تفصیلات سے آگاہ کیا۔ ان میں سے 7,724 ملازمتیں ”ڈائنگ پوسٹس“ قرار دی گئی ہیں، جو مستقبل میں ختم کی جائیں گی۔ اس فیصلے کے تحت سب سے زیادہ 7,305 اسکیل-1 کی ملازمتیں ختم کی جائیں گی، جبکہ گریڈ 21-22 کی صرف دو ملازمتیں ختم کی جائیں گی۔ گریڈ 20 کی 36 اور گریڈ 19 کی 99 ملازمتیں مستقبل میں ختم کی جائیں گی۔

کابینہ کے سیکریٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ وزیراعظم نے وفاقی حکومت کے سائز میں کمی کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ کارکردگی میں بہتری لائی جا سکے اور اہم ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔ اس کے علاوہ، حکومت کے زیر انتظام تجارتی سرگرمیوں کا جائزہ لے کر ان کی ضرورت اور مؤثریت کا تعین کیا جا رہا ہے۔ تاہم، ریگولیٹری اداروں پر اس رائٹ سائزنگ کے اثرات نہیں ہوں گے، لیکن انہیں مشیروں، عملہ کی تعداد اور تنخواہ کے ڈھانچے کے بارے میں ڈیٹا فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔سینیٹر شیری رحمان نے حکومت کے اصلاحاتی اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ایک طرف حکومت اخراجات میں کمی کی بات کرتی ہے، جبکہ دوسری طرف وفاقی کابینہ کا حجم دوگنا کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ رائٹ سائزنگ پالیسی سے حکومت کے ملازمین پر کیا اثرات مرتب ہوں گے،

خاص طور پر ان پر جو قبل از وقت ریٹائرمنٹ پر مجبور ہوں گے۔جواب میں، کابینہ کے سیکریٹری نے اس بات کو تسلیم کیا کہ رائٹ سائزنگ کا فیصلہ اہم ہے اور اس سے ریاست کے لیے خاطر خواہ بچت ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ غیر ضروری ملازمتوں کے خاتمے سے پہلے ہی اخراجات میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان اقدامات کا مقصد حکومت کے محکموں میں آپریشنل کارکردگی میں اضافہ کرنا ہے۔کمیٹی کے اراکین کو بتایا گیا کہ رائٹ سائزنگ کمیٹی کی کارکردگی کا باقاعدگی سے جائزہ لیا جا رہا ہے، اور شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانے کے لیے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اجلاس کے دوران، کمیٹی نے ”انکم ٹیکس (ترمیمی) بل 2025“ کے حتمی مسودے پر بھی تبادلہ خیال کیا، جسے سینیٹر ذیشان خانزادہ نے 17 فروری 2025 کو سینیٹ اجلاس میں پیش کیا تھا۔

اس بل کی درجہ بندی کو لے کر اعتراضات اٹھائے گئے، اور اراکین نے اس میں تبدیلیوں کے امکان پر غور کیا۔ سینیٹر رحمان نے کہا کہ اگر کوئی تجویز بہتری کی طرف لے جاتی ہے تو ہمیں اسے روکنا نہیں چاہیے۔ مزید وضاحت کے لیے، کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اگلی ملاقات میں چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی ار) کو طلب کیا جائے گا۔اجلاس میں کمیٹی کے چیئرمین اور اراکین نے متفقہ طور پر اس معاملے کا تفصیل سے جائزہ لینے اور اگلی ملاقات میں اس پر مزید بحث کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس اجلاس میں سینیٹرز محسن عزیز، شیری رحمان، فیصل واوڈا، ذیشان خانزادہ، انوشہ رحمان، کابینہ ڈویژن اور وزارت خزانہ و محصولات کے سیکریٹریز، اور متعلقہ محکموں کے سینئر حکام بھی موجود تھے۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں