سیاسی خودکشی

سیاسی خودکشی

سیاسی خودکشی

تحریر۔عزیز سنگھور

یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ جب سردار اختر مینگل کی قیادت میں بلوچ عوام “ننگ و ناموس” کے تحفظ، اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، گلزادی ساتکزئی، بیبرگ بلوچ، شاہ جی سمیت دیگر سیاسی اسیران کی رہائی کے لیے سڑکوں پر ہیں، وہاں نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیرِِاعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی غیر موجودگی شدید مایوسی کا سبب بنی ہے۔ ڈاکٹر مالک، جو قومی اسمبلی، سینٹ اور وزارتِ اعلیٰ جیسے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، ان کی خاموشی اس تاثر کو جنم دیتی ہے کہ سیاسی مصلحت یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت ان کے لیے بلوچ قومی درد سے زیادہ اہم ہو چکی ہے۔

اس وقت جب بلوچ خواتین اور بچے ریاستی جبر کے خلاف صفِ اول میں ہیں، ڈاکٹر مالک بلوچ جیسے رہنما کی غیر موجودگی یہ سوال اٹھاتی ہے: کیا بلوچ سیاست اب صرف اقتدار کے دروازے کھٹکھٹانے تک محدود ہو چکی ہے؟
جب سردار اختر مینگل کی قیادت میں جاری دھرنا بلوچستان کے سیاسی اسیران کی رہائی اور بلوچ عزت و وقار کے تحفظ کے لیے ایک اہم سنگ میل بن چکا ہے، وہاں محمود خان اچکزئی جیسے پشتون رہنما کی شرکت ایک قومی یکجہتی کی علامت ہے۔ لیکن صد افسوس کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جیسے تجربہ کار بلوچ قوم پرست رہنما میں اتنی سیاسی جرات باقی نہیں رہی کہ وہ اس دھرنے میں آکر مظلوم بلوچ عوام کے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔

ایک وقت تھا جب ڈاکٹر مالک بلوچ کو بلوچ دانش اور سیاست کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا، لیکن آج ان کی خاموشی نے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا وہ اب صرف پارلیمانی مفادات کے اسیر ہو چکے ہیں؟ جب بلوچ خواتین اور بچے ظلم کے خلاف سڑکوں پر موجود ہوں، اور محمود اچکزئی جیسے غیر بلوچ رہنما ان کا ساتھ دیں، تو ڈاکٹر مالک جیسے بلوچ رہنما کی غیر حاضری نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ سیاسی بےوفائی کے زمرے میں آتی ہے۔عید کے دن جب بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل اپنے کارکنوں اور مظلوم بلوچ عوام کے ساتھ دھرنے میں شریک تھے، تب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ، جو خود کو ایک قوم پرست رہنما کہتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ساتھ عید کی خوشیاں منا رہے تھے۔ یہ وہ لمحہ تھا جہاں بلوچ قوم کو ایک واضح پیغام ملا: کچھ رہنما اقتدار اور مراعات کے اتنے قریب ہو چکے ہیں کہ انہیں قوم کے دکھ اور قربانیوں کا احساس تک نہیں رہا۔

بلوچستان اُس روز خوشی منانے کے بجائے اپنے سیاسی قیدیوں کی رہائی، لاپتہ افراد کی بازیابی اور اجتماعی اذیت پر سوگوار تھا۔ ایسے میں ڈاکٹر مالک بلوچ کی عید ملن کی تصاویر اور ملاقاتیں بلوچ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھیں۔ڈاکٹر مالک بلوچ کی جانب سے اختر مینگل کے دھرنے سے دوری، بلوچ خواتین اور بچوں کی جدوجہد سے لاتعلقی، اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شرکت ، یہ سب ایک گہری حقیقت کی غمازی کرتے ہیں کہ ڈاکٹر مالک اب ایک کمزور اور غیرموثر سیاسی کردار بن چکے ہیں۔

یہ کمزوری محض وقتی سیاسی چال نہیں، بلکہ ان کی سیاسی موت کی دستک ہے۔ قوم پرست سیاست میں اگر کوئی رہنما اپنی قوم کے درد، اس کی مزاحمت اور اس کی آواز کے ساتھ نہ کھڑا ہو، تو وقت اُسے خود ہی بےنقاب کر دیتا ہے۔ آج ڈاکٹر مالک بلوچ اپنی خاموشی، مصلحت پسندی اور ریاستی قربت کے باعث نہ صرف بلوچ عوام کی نظروں سے گر چکے ہیں بلکہ تاریخ میں بھی وہ شاید ایک مایوس کن باب کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔

بلوچستان کے موجودہ سیاسی منظرنامے میں جب سردار اختر مینگل جیسے رہنما دھرنے کی قیادت کر رہے ہیں، بلوچ خواتین و بچے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر ہیں، اور بلوچ قوم اجتماعی اذیت میں مبتلا ہے ۔ ایسے وقت میں ڈاکٹر مالک بلوچ کی بےحسی، لاتعلقی اور ریاستی حلقوں سے قربت نے اُن کے بارے میں ایک فیصلہ کن رائے قائم کر دی ہے: وہ اپنی سیاسی خودکشی خود اپنے ہاتھوں سے کر رہے ہیں۔

یہ وہ لمحہ ہے جہاں قیادت کو قوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا، مگر ڈاکٹر مالک نے عید کی خوشیوں کو ترجیح دی۔ یہ عمل صرف ایک رہنما کی کمزوری نہیں، بلکہ اس بات کا اعلان ہے کہ ڈاکٹر مالک اب بلوچ سیاست میں ایک غیرمتعلقہ کردار بن چکے ہیں۔

تاریخ ایسے رہنماؤں کو معاف نہیں کرتی جو اقتدار کی مصلحتوں کو قوم کے درد پر فوقیت دیتے ہیں۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں