امریکا کا معاشی بم! چینی مصنوعات پر 104 فیصد ٹیکس کا اعلان

امریکا کا معاشی بم! چینی مصنوعات پر 104 فیصد ٹیکس کا اعلان

امریکا کا معاشی بم! چینی مصنوعات پر 104 فیصد ٹیکس کا اعلان

امریکا نے چین کی طرف سے آنے والی درآمدات پر ایک بار پھر بڑا حملہ کیا ہے۔ اب کی بار بعض چینی مصنوعات پر 104 فیصد ٹیکس عائد کردیا ہے۔ اس ٹیکس کا نفاذ گزشتہ شب 12 بجے سے ہوگیا ہے۔امریکا کی جانب سے ایک بار پھر ٹیکس حملہ کے بعد چین اور ہانگ کانگ کی مارکیٹیں بلندی کی طرف مائل ہونے کے بعد مندی کا شکار ہوگئیں۔واضح رہے کہ شنگھائی سمیت ایشیا کی متعدد اسٹاک مارکیٹوں میں گزشتہ روز قدرے بہتری نظر آئی تھی۔ ایسا کئی روز کی مندی کے بعد ہوا تھا تاہم گزشتہ روز امریکا کی جانب سے چند چینی مصنوعات پر ٹیرف 100 فیصد سے بھی بڑھائے جانے کے بعد بدھ کے روز کاروبار شروع ہوتے ہی چین کے شنگھائی کمپوزٹ انڈیکس میں 1.8 فیصد کمی ہوگئی جبکہ ہانگ کانگ کی ہانگ سنگ میں 2.8 فیصد کی کمی دیکھنے کو ملی۔دیگر ایشیائی منڈیوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ جاپانی بینچ مارک نکی میں 4 فیصد کمی ہوئی۔ جنوبی کوریا کی کوسپی میں کاروبار کا آغاز ہونے کے ایک گھنٹہ بعد ہی 1.5 فیصد کمی کا شکار ہوگئی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل ٹریڈ میں 1930 کی دہائی کے بعد پہلی بار ابتری دیکھنے کو مل رہی ہے۔دوسری طرف چین نے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ امریکا کی جانب سے عائد محصولات کا جواب دے گا۔یاد رہے کہ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے اعلان کیا تھا کہ منگل کا دن ختم ہوتے ہی رات 12:01 بجے سے امریکا کی جانب سے چند چینی مصنوعات پر 104 فیصد ٹیکس لاگو ہو جائے گا۔امریکا کی جانب سے یہ اقدام اس لیے کیا گیا ہے کہ چین نے ٹرمپ ٹیرف کے جواب میں امریکا کی طرف سے آنے والی درآمدات پر بھی جوابی ٹیکس عائد کردیا ہے۔ اب امریکا چاہتا ہے کہ چین یہ جوابی ٹیرف واپس لے لیکن چین نے اس مطالبے کو غور کرنے کے قابل بھی نہیں سمجھا۔وائٹ ہاؤس کی ترجمان کا دعویٰ ہے کہ تقریباً 70 ممالک نے امریکا سے ٹیرف کے معاملے پر مذاکرات کے لیے رابطہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئَے پر ملک کے لیے علیحدہ حکمتِ عملی اپنائی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ ٹیرف پر چین امریکا سے معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔کیرولین لیویٹ کا مزید کہنا تھا کہ ٹیرف کے معاملے پر کوئی تاخیر نہیں ہوگی

اور نہ ہی اسے توسیع دی جائے گی۔ماہرین ان دنوں اس سوال پر غور کر رہے ہیں کہ امریکا اور چین کے مابین ہونے والی تجارتی کشیدگی کے کیا اثرات برآمد ہوں گے؟وانگارڈ انویسٹمنٹ فرم کے ایشیا پیسیفک کے چیف اکانومسٹ چیانگ وانگ کا کہنا ہے کہ بلاشبہ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی کشیدگی میں اضافے کے باعث چین کی برآمدات میں تیزی سے کمی آئے گی۔اس کے نتیجے میں مقامی سرمایہ کاری، لیبر مارکیٹ، کھپت اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گا۔ اطلاعات کے مطابق اب چین نے متبادل منڈیاں تلاش کرنے کے لیے یورپی کمیشن سے رابطہ کرلیا ہے۔ چینی وزیراعظم لی چیانگ اور یورپی کمیشن کے صدر ارسلا واندر لین کے مابین ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے امریکی ٹیرف کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور اقتصادی شعبہ میں تعاون پر اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے عالمی اقتصادی آزادی، تجارتی فروغ اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اصولوں پر عمل کا اعادہ کیا۔دونوں رہنماؤں نے اسٹریٹیجک، اقتصادی، تجارتی، گرین انرجی اور ڈیجیٹل شعبوں میں بھی تعاون کی یقین دہائی کروائی۔یورپی کمیشن کے صدر نے کہا کہ چین اور یورپی یونین آزاد تجارت کی حمایت کرتے ہیں۔ جبکہ چینی وزیراعظم نے کہا کہ چینی پالیسیاں غیر یقینی صورت حال اور بیرونی اثرات کو برداشت کرسکتی ہے۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں